رسائی کے لنکس

ایران: مہسا امینی کے چالیسویں پر 'پابندی'، سیکیورٹی انتظامات کے باوجود مظاہرے


ایک طالبہ مظاہرے کے دوان مہسا امینی کا پوسٹر اٹھائے ہوئے ہے۔
ایک طالبہ مظاہرے کے دوان مہسا امینی کا پوسٹر اٹھائے ہوئے ہے۔

ایران میں اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کو بدھ کو 40 روز ہوچکے ہیں۔ ان کے چالیسویں سے ایک روز قبل کئی جامعات اور تعلیمی اداروں میں طلبہ نے مظاہرے کیے اور حکومتی رہنماؤں اور پاسدارانِ انقلاب کے خلاف نعرے بازی کی۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی ایک رپورٹ کے مطابق سماجی کارکنوں نے کہا ہے کہ سیکیورٹی حکام نے مہساامینی کے چالیسویں کے موقع پر ان کے خاندان اور لوگوں کو ان کی قبر پر جانے سے منع کرتے ہوئے تنبیہہ کی ہے کہ انہیں اپنے بیٹوں کی زندگی کی فکر کرنی چاہیے۔

ایران میں کسی شخص کے چالیسویں کے موقع پر منعقد اجتماع میں خاندان کے افراد، عزیز و اقارب، دوست احباب اور دیگر افراد شریک ہوتے ہیں۔

ایران کے سرکاری خبررساں ادارے 'ارنا' میں شائع ہونے والے ایک بیان میں مہسا امینی کے خاندان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ حالات کے پیش نظر اور کسی مسئلے سے بچنے کے لیے ہم چالیسویں کا اجتماع نہیں کر رہے ہیں۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مہسا امینی کے خاندان کی جانب سے یہ بیان دباؤ کے ذریعے دلوایا گیا ہے۔

مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں کو پانچ ہفتوں سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن مظاہروں کی شدت برقرار ہے۔
مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں کو پانچ ہفتوں سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن مظاہروں کی شدت برقرار ہے۔

واضح رہے کہ ایران میں22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اب بھی جاری ہے جس میں خواتین اور طالبات مسلسل پیش پیش ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ایک وڈیو میں جنوبی مشرقی صوبے خوزستان کے شہر اہواز میں واقع شہید چمران یونیورسٹی کے طلبہ کو یہ نعرے لگاتے ہوئے سنا گیا کہ ''طالب علم کو موت قبول ہے لیکن ذلت نہیں۔''

مہسا امینی کا تعلق ایران کے کرد علاقے سے تھا۔ انہیں13 ستمبر کو اخلاقیات کی نگرانی سے متعلق پولیس نے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ایران کے دارالحکومت تہران آئی ہوئی تھیں۔ پولیس نے یہ کہتے ہوئے انہیں حراست میں لیا تھا کہ انہوں نے خواتین کے لیےمقرر کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے سر کے بالوں کو درست طریقے سے ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔

مہسا کا گرفتاری کے تیسرے روز پولیس کی حراست میں انتقال ہو گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا جس میں وہ جانبر نہ ہو سکی تھیں جب کہ ان کے والدین اور لوگوں کا کہنا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کی وجہ پولیس کا تشدد تھا۔

منگل کے روز تہران میں واقع بہشتی یونیورسٹی، خواجہ نصیرالدین طوسی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اور اہواز کی شہید چمران یونیوسٹی کے طالب علموں کی ویڈیوز شائع ہوئی ہیں جن میں انہیں احتجاج کرتے اور حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

تہران کی ایک شاہراہ پر نصب دیو قامت بل بورڈ جس میں ایرانیوں کو قومی پرچم کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تہران کی ایک شاہراہ پر نصب دیو قامت بل بورڈ جس میں ایرانیوں کو قومی پرچم کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

سماجی کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ پیر کے روز سیکیورٹی فورسز نے تہران میں شہید صدر گرلز ووکیشنل اسکول کی طالبات پر حملہ کیا، ان کی تلاشی لی اور انہیں مارا پیٹا۔

اے ایف پی کے مطابق 1500تصویر سوشل میڈیا چینل کے مطابق حملے کے نتیجے میں ایک 16 سالہ طالبہ ثنا سلیمانی کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔اس واقعےکے بعد طالبات کے والدین نے اسکول کے باہر مظاہرہ کیا جس کے جواب میں سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں لوگوں کے گھروں پر فائرنگ کی۔

بعد ازاں وزارت تعلیم کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس احتجاج کا تعلق طالبات، ان کے والدین اور اسکول انتظامیہ کے درمیان موبائل فون کے استعمال سے متعلق تنازع سے تھا نہ کہ مہسا امینی کے معاملے سے۔ اسکول انتظامیہ موبائل فون کے استعمال سے متعلق قواعد پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے۔

ایران کی انسانی حقوق کی تنظیم(آئی ایچ آر) کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احتجاجی مظاہروں میں شریک ہونے والوں کے خلاف حکومتی پکڑ دھکڑ کے نتیجے میں منگل کے روز تک 141 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایک طالبہ بینر اٹھائے ہوئے ہے جس پر خواتین کی آزادی کے حق میں نعرہ درج ہے۔
ایک طالبہ بینر اٹھائے ہوئے ہے جس پر خواتین کی آزادی کے حق میں نعرہ درج ہے۔

مظاہروں میں یہ ہلاکتیں صرف کردستان میں ہی نہیں ہوئیں بلکہ زاہدان کے جنوب مغربی علاقے میں بھی ہوئی ہیں۔ ایران کے انسانی حقوق کے گروپ آئی ایچ آر کا کہنا ہے کہ ایک نوجوان لڑکی پر ایک پولیس کمانڈر کےجنسی حملے کے خلاف 30 ستمبر کو پھوٹ پڑنے والے مظاہروں میں اب تک 93 افراد مارے جا چکے ہیں۔

ایران کی تسنیم نیوزایجنسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منگل کے روز نامعلوم مسلح افراد نے تہران میں سپاہ پاسدارن انقلاب کے دو ارکان کو ہلاک کر دیا جس کے بعد سیستان بلوچستان میں ہلاک ہونے والے اہل کاروں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔

کردستان میں فورسز کے تشدد کے خلاف اساتذہ نے اتوار، پیر اور منگل کے روز ہڑتال کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ان مظاہروں میں فورسز کے تشدد کے نتیجے میں کم ازکم 23 بچے مارے گئے ہیں جب کہ ایران کی انسانی حقوق کی تنظیم آئی ایچ آر نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 29 بتائی ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے منگل کے روز کہا ہے کہ کردستان، اصفہان اور قزوین کے صوبوں میں ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 210 سے بڑھ گئی ہے۔ ارنا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خوزستان میں مظاہروں کے دوران مختلف الزامات میں 105 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کی معلومات' اے ایف پی'سےلی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG