منگل کو آب وہوا کے عالمی سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب سے پہلے، یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک روس کے ساتھ حقیقی مذاکرات پر غور کے لیے تیار ہے۔
زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک ماسکو کے ساتھ بات چیت کے لیے اس صورت میں تیار ہے اگر یوکرین کی سرحدیں بحال ہو جائیں۔ روس کے حملوں کے متاثرین کو معاوضہ دیا جائے اور مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے کی کوششیں کی جائیں۔
صدر کے تبصرے واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یوکرین امن مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرے۔ رپورٹ کے مطابق یہ رضامندی کیف کے لیے بین الاقوامی حمایت کو تقویت دے گی۔
یوکرین کی قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کے سربراہ اولسکی ڈینیلوف نے کہا ہےکہ اس طرح کے غور و خوض کے لیے بنیادی شرط یوکرین کی علاقائی سالمیت کی بحالی ہوگی۔
انہوں نے بین الاقوامی معاونت کی ایک اپیل کو دہراتے ہوئے کہا کہ یوکرین کو جدید فضائی دفاع، طیارے، ٹینک اور دور مار میزائلوں کی کسی قسم کی ضمانت کی ضرورت ہو گی ۔
یوکرین کو فضائی دفاع کے جدید ہتھیار مل گئے
ایک اور خبر کے مطابق یوکرین کو روسی افواج کے خلاف اپنی لڑائی میں پیر کو اعلیٰ درجے کے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹمز اور ایسپائیڈ ایئر ڈیفنس سسٹم کی پہلی کھیپ مل گئی ہے۔
یوکرین کے وزیر دفاع اولیکسی ریزنیکوف نے ٹوئٹر پر لکھا، ہم دشمن کے اہداف کو نشانہ بناتے رہیں گے جو ہم پر حملہ آور ہیں۔ ناروے، اسپین اور امریکہ ، آپ کا شکریہ ۔
اسی دوران برطانیہ کی وزارت دفاع نے منگل کو کہا کہ روس نے جنوبی یوکرینی شہر ماریوپول کے ارد گرد دفاعی اسٹرکچرز کی تعمیر شروع کر دی ہے ۔
یوکرین جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے اور وہ اس ہفتے کے آخر میں کمبوڈیا کے شہر نوم پنہ میں جنوبی مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کے ساتھ اہم خارجہ تعلقات کے ایک معاہدے پر دستخط کر رہا ہے۔
توقع ہے کہ یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا ذاتی طور پر، جنوب مشرقی ایشیا میں اتحاد اور تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط اور آسیان کی کچھ تقریبات میں شرکت کریں گے۔ ٹی آر سی نامی یہ امن معاہدہ آسیان کو فنڈز دینے والے ارکان نے 1976 میں تشکیل دیا تھا جس میں معاہدے میں شریک ملکوں کے لیے باہمی احترام، علاقائی سالمیت اور قومی شناخت کے بنیادی اصولوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔
ایک غیر جنوبی ایشیائی ملک یوکرین کی اس معاہدے میں شمولیت پر متفق ہونے کو آسیان کے دس ارکان نے ایک سفارتی اقدام قرار دیا ہے ۔
اس رپورٹ کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔