پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کا دورۂ لندن اور سابق وزیرِ اعظم ںواز شریف سے متعدد ملاقاتوں کا معاملہ پاکستانی سیاست میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق شہباز شریف نے رواں ماہ کے آخر میں آرمی چیف کی تقرری کے معاملات پر نواز شریف سے مشاورت کی ہے۔
اس مشاورت میں شامل وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی ہے کہ ان ملاقاتوں میں آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر بات چیت ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس میں شرکت کے لیے مصر گئے تھے جہاں سے وہ بدھ کو نجی پرواز کے ذریعے اچانک لندن روانہ ہوگئے تھے۔
رواں سال اپریل میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا یہ برطانیہ کا تیسرا دورہ تھا۔
پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ ان دونوں ملکی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد کی جانب لانگ شروع کر رکھا ہے۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا مقصد آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے۔
البتہ عمران خان مختلف مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی میرٹ پر ہو جب کہ اُن کا بنیادی مطالبہ ملک میں فوری انتخابات ہیں۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد ملک میں سیاسی درجۂ حرارت کم ہونے کی اُمید ہے۔
'شہباز شریف کا یہ دورہ اچانک تھا'
لندن میں مقیم صحافی ثاقب راجہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کا لندن کا دورہ پہلے سے طے نہیں تھا بلکہ اچانک اور آخری لمحات میں طے ہوا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف مصر سے نجی پرواز کے ذریعے لندن پہنچے اور پاکستان سے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو بھی بلوایا گیا جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس ملاقات میں آرمی چیف کی تعیناتی زیرِ بحث رہی ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی مشاورت کی گئی کیوں کہ نواز شریف چاہتے تھے کہ یہ اہم فیصلہ ان کی جماعت خود سے نہ کرے بلکہ اتحادی جماعتیں بھی آن بورڈ ہوں۔
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ ہے اور لندن میں ہونے والی حالیہ ملاقات اسی کا تسلسل ہے جس میں آرمی چیف کی تعیناتی کے اہم فیصلے پر صلاح مشورہ کیا گیا ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اہم حکومتی فیصلوں میں اپنے بھائی اور پارٹی کے قائد سے مشورے کرتے رہے ہیں جیسا کہ نواز شریف کے کہنے پر اسحاق ڈار کی بطور وزیرِ خزانہ تقرری ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ لندن میں ہونے والی ملاقات کے بعد ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سب سے سینئر جنرل کو آرمی چیف لگانے کی طرف جھکاؤ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف ماضی میں سنیارٹی نہ رکھنے والے جنرلز کو آرمی چیف بناتے رہے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول یہی شنید ہے کہ سینئر ترین جنرل کو ہی فوج کا سربراہ بنایا جائے گا۔
شہباز شریف کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کی خبریں اور تبصرے کیے جارہے ہیں۔
عمران خان نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ موجودہ آرمی چیف کو عام انتخابات کے انعقاد تک توسیع دے دینی چاہیے تاکہ نئی حکومت ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کرے۔
ثاقب راجہ نے دعویٰ کیا کہ دو روز تک جاری رہنے والی اس مشاورت میں موجودہ آرمی چیف کی توسیع زیرِ بحث نہیں آئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق اس مشاورتی عمل کے نتیجے میں فوج کے نئے سربراہ کے نام کا تعین کرلیا گیا ہے۔
سہیل وڑائچ بھی کہتے ہیں کہ قمر جاوید باجوہ کی مدت میں توسیع کے حوالے سے باتیں اب ختم ہوجاںی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ اب جب کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ الوداعی ملاقاتیں کررہے ہیں تو انہیں توسیع دینے کے تبصرے زیادہ اہم نہیں رہے ہیں۔
ثاقب راجہ کہتے ہیں کہ لندن ملاقات میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ہونے والے فیصلے پر آئندہ چند روز میں چیزیں واضح ہوجائیں گی۔
سہیل وڑائچ بھی سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کے لیے کس کا انتخاب کیا گیا ہے یہ ٹاپ سیکرٹ معاملہ ہے جو ابھی سامنے نہیں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے میں اس حوالے سے واضح اشارے سامنے آجائیں گے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے بہتر یہی ہے کہ سب سے سینئر جنرل کو آرمی چیف بنایا جائے۔