امریکی ایوانِ نمائندگان میں حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پارٹی نے بدھ کو 218 نشستیں حاصل کر کے معمولی سبقت حاصل کر لی ہے۔
آٹھ نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے مکمل نتائج میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے کیوں کہ کئی حلقوں میں ووٹوں کی گنتی کا عمل اب بھی جاری ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق 435 ارکان پر مشتمل ایوانِ نمائندگان میں کسی بھی جماعت کو برتری حاصل کرنے کے لیے کم از کم 218 نشستیں درکار تھیں اور بدھ کو ری پبلکن پارٹی نے مطلوبہ نمبر حاصل کرلیا ہے۔
حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کو ایوان میں اب تک 211 نشستیں ملی ہیں۔ اس طرح ڈیموکریٹک پارٹی کو آٹھ نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وسط مدتی انتخابات سے قبل ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹی کو ری پبلکنز پر نو نشستوں کی برتری حاصل تھی۔
ری پبلکن پارٹی اگر ایوانِ نمائندگان میں اپنی سبقت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو اس صورت میں صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جب کہ بائیڈن کے مواخذے کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
ایوانِ نمائندگان میں سبقت حاصل کرنے کے بعد ری پبلکن پارٹی کلیدی کمیٹیوں کا کنٹرول سنبھال لے گی۔
انہیں قانون سازی کرنے اور صدر بائیڈن، ان کے خاندان اور ان کی انتظامیہ کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا موقع مل جائے گا۔
بعض ری پبلکن ارکان صدر کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے بیرونِ ملک کاروباری معاملات کی چھان بین میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔
وسط مدتی انتخابات سے قبل ری پبلکن پارٹی نے ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجز اور صدر بائیڈن کی کم ہوتی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایوانِ نمائندگان میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے کی پیش گوئی کی تھی تاہم انہیں ملنے والی نشستیں توقعات سے کافی کم قرار دی جا رہی ہیں۔
ایوانِ نمائندگان سے منظور ہونے والے کسی بھی بل کو سینیٹ میں منظوری کے لیے مشکل ہو سکتی ہے، جہاں ڈیموکریٹس نے ہفتے کو اکثریت حاصل کی تھی۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹس ارکان کی تعداد 50 اور ری پبلکنز کی 49 ہے۔ دونوں جماعتیں اب جارجیا میں چھ دسمبر کو ہونے والے سینیٹ کے انتخاب کو ایوان میں برتری حاصل کرنے کے لیے آخری موقع کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔
ایوانِ نمائندگان میں سبقت حاصل کرنے کے بعد اسپیکر کا انتخاب سب سے اہم ہوتا ہے جس کے لیے ری پبلکن پارٹی کی جانب سے کیون میک کارتھی کوشش میں لگے ہیں۔
تاہم وسط مدتی انتخابات کے نتائج میک کارتھی کے اسپیکر بننے کے منصوبے کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں کیوں کہ کچھ قدامت پسند اراکین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا ان کی حمایت کی جائے یا ان کی حمایت کے لیے شرائط عائد کی جائیں۔