چین کے صدر شی جنگ پنگ نے کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو سے جی 20 سمٹ کے دوران آمنا سامنا ہونے پر غیر رسمی ملاقات کی تفصیلات میڈیا پر آنے سے متعلق خفگی کا اظہار کیا ہے جس کی ایک ویڈیو بھی سامنے آگئی ہے۔
دونوں رہنما انڈونیشیا میں ہونے والے جی 20 ممالک کے اجلاس میں شریک تھے جہاں بدھ کو ان کا آمنا سامنا ہوا۔ اس دوران چینی صدر اپنے ترجمان کے ذریعے کینیڈا کے وزیرِ اعظم سے بات چیت کرتےہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
ترجمان کے ذریعے دونوں سربراہانِ مملکت کے درمیان ہونے والی گفتگو وہاں موجود میڈیا کے کیمروں میں بھی محفوظ ہوگئی ہےجسے واضح طور پر سنا جاسکتا ہے۔
اس گفتگو میں صدر شی اپنے ترجمان کے ذریعے کہتے ہیں:’ہم نے جو بات بھی کی تھی وہ اخبار کو لیک ہوگئی، یہ ٹھیک نہیں ہوا۔‘
صدر شی مزید کہتے ہیں: ’اگر سنجیدگی ہو تو ہم باہمی احترام کے ساتھ اچھی طرح رابطے برقرار رکھ سکتے ہیں، ورنہ یہ بتانا مشکل ہوگا کہ کیا نتائج نکلیں گے۔‘
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر شی نے ممکنہ طور پر دو روز قبل کینیڈا کے وزیرِ اعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات کی تفصیلات میڈیا پر آنے کی وجہ سے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
تین برس بعد دونوں رہنماؤں کی منگل کو ہونے والی ملاقات بھی جی 20 اجلاس کے دوران ہوئی تھی اور میڈیا پر آنے والی اس کی تفصیلات کے مطابق جسٹن ٹروڈو نے چینی صدر سے کینیڈا کے انتخابات میں ’مداخلت‘ اور جاسوسی سے متعلق اپنی ’تشویش‘ کا اظہار کیا تھا۔
اسی لیے صدر شی کے ترجمان کے ذریعے سے جو پہلا فقرہ ویڈیو میں سنا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ ’ہم نے جو بات چیت کی تھی وہ پیپرز کو لیک ہوگئی، یہ ٹھیک نہیں ہوا۔‘
اس بات چیت میں کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو چینی صدر کو جواب دیتے ہیں کہ کینیڈا میں ہم آزاد، کھلے اور بے تکلفانہ مکالمے پر یقین رکھتے ہیں اور ہم یہ کرتے رہیں گے۔ ہم ایک ساتھ مل کر تعمیری کام کرتے رہیں گے لیکن اس میں ہمارے درمیان اختلافِ رائے بھی ہوگا۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جسٹن ٹروڈو کی گفتگو کے دوران صدر شی آس پاس دیکھ رہے ہیں اور پھر اپنے ترجمان کے لیے ذریعے جواب دیتے ہیں:’چلیں پہلے اس کے لیے حالات پیدا کرتے ہیں۔‘اس کے بعد دونوں مصافحہ کرکے الگ ہوجاتے ہیں۔
عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے ان مناظر کو چین کے سرکاری مناظر نے بہت محتاط انداز میں چھانٹ کر استعمال کیا ہے۔
واضح رہے کہ منگل کو دونوں رہنماؤں میں ہونے والی ملاقات بھی غیر رسمی تھی اور دونوں ممالک کی جانب سے اس کا کوئی باضابطہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔چینی دفتر خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق صدر شی نے جی 20 اجلاس کے دوران نو سربراہان مملکت کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتیں کی ہیں۔
’ہر بات چیت آسان نہیں ہوتی‘
کینیڈا کی جانب سے بھی منگل کو ہونے والی ملاقات کا اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تھا تاہم جی 20 اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس میں وزیرِ اعظم ٹروڈو نے چینی سربراہِ مملکت سے ہونے والی گفتگو کے نکات کی تصدیق کی۔
صدر شی کے ساتھ ہونے مکالمے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ہر بات چیت آسان نہیں ہوتی۔ تاہم انہوں نے چین کے نظام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر جگہ ویسی شفافیت نہیں ہوتی جیسی ایک جمہوری لیڈر اپنے شہریوں کے ساتھ رکھتا ہے اور اسے رکھنی چاہیے۔
دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ
صدر شی اور وزیرِ اعظم ٹروڈو کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ سامنے آنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں پایا جانے والا تناؤ ایک بار پھر نمایاں ہوگیا ہے۔
کشیدگی کا آغاز 2018 میں ہوا جب ہواوے ٹیکنالوجیز کے بانی کی بیٹی اور کمپنی کی اعلیٰ عہدے دار منگ وانزھو کو امریکہ کی درخواست پر کینیڈا پہنچنے پر گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد چین نے دو کینیڈین شہریوں کو جاسوسی کے الزامات میں گرفتار کرلیا تھا۔یہ تمام افراد اب رہا ہوچکے ہیں تاہم اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔
رواں ہفتے کینیڈا کی سب سے بڑی بچلی پیدا کرنے والی کمپنی ہائیڈرو کیوبک کے بیٹری کی تیاری پر تحقیق کرنے والے ایک ملازم کو چین کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
کینیڈا کی پولیس کے مطابق اس شخص پر الزام ہے کہ وہ چین کو فائدہ پہنچانے کے لیے کمپنی کے کاروباری راز چوری کرنے میں ملوث ہے۔
گرفتاری کی یہ خبر اس وقت سامنے آئی تھی جب ٹروڈو اور شی جن پنگ انڈونیشیا میں منعقدہ جی 20 اجلاس میں شریک تھے۔
رواں ماہ کینیڈا نے قومی سیکیورٹی کو وجہ بتاتے ہوئے چین کی تین کمپنیوں کو اپنے انتہائی اہم معدنیات کے شعبے سے سرمایہ کاری نکالنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس سے قبل کینیڈا فائیو جی نیٹ ورکس کے لیے ہواوے کے آلات کے استعمال پر بھی پابندی لگا چکا ہے۔
کینیڈا اور اس کے مغربی اتحادی چین کی کمیونسٹ پارٹی اور اس کے عسکری ونگ سے قریبی روابط ہونے کی وجہ سے ہواوے کمپنی سے دوری اختیار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ’اے پی‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔