پاکستان میں رواں برس وجود میں آنے والی نئی بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) نے تنظیم کے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری کی تصدیق کر دی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے جہاں گلزار امام کی گرفتاری کو بی این اے اوربلوچ علیحدگی پسند تحریک کے لیے ایک دھچکہ قرار دے رہے ہیں تو وہیں سیکیورٹی ماہرین کا کہناہے کہ بلوچ علیحدگی پسند رہنما کی گرفتاری سے بلوچ مسلح تحریک پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔
بی این اے نے رواں برس جنوری میں اپنے قیام کے چند روز بعد ہی لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کرکے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔
رواں برس 20 جنوری کو لاہور کے انار کلی بازار میں موٹر سائیکل پر نصب بم پھٹنے سے تین افراد ہلاک جب کہ 26 زخمی ہو گئے تھے۔ بی این اے نے اس کارروائی کی ذمے داری قبول کی تھی۔
گلزار امام کی گرفتاری کی خبریں دو ماہ قبل ستمبر کے وسط سے ہی سامنے آ رہی تھیں۔ اطلاعات تھیں کہ اُنہیں ایران سے ترکیہ پہنچنے پر حراست میں لے کر پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔
منگل کو بی این اے کے ترجمان مرید بلوچ نے ایک اعلامیے میں تصدیق کی کہ گلزار امام پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی حامی ویب سائٹس کو جاری کردہ اعلامیے میں بی این اے کی جانب سے کہا گیاہے کہ کچھ عرصہ قبل گلزار امام عرف شمبے لاپتا ہوئے تھے جس پر تنظیم نے تحقیقات کیں۔ مصدقہ شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لاپتا ہونے کے بعد سے ہی پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں۔
اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ گلزار احمد کی گرفتاری کہاں، کب اور کیسے ہوئی۔
کوئٹہ میں تعینات ایک اعلٰی انٹیلی جنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گلزار احمد کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُنہیں ستمبر میں ایک دوست ملک کے تعاون سے گرفتار کیا گیا۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے معاملات سے باخبر پنجگور کے ایک سیاسی رہنما نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایران سے ترکیہ پہنچنے پر گلزار امام کو وہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لے کر پاکستان کے حوالے کیا۔
گلزار امام کون ہیں؟
بلوچستان کے شہر پنجگور سے تعلق رکھنے والے گلزار امام نے سیاست کا آغاز 2002 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے 'امان' نامی ایک دھڑے سے کیا تھا۔
انہیں برسوں میں جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تین دھڑوں کا انضمام اور اس کے بعد دوبارہ ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی، تو گلزار امام بلوچ علیحدگی پسند رہنما بشیر زیب کی قیادت میں بننے والے ایک دھڑے میں شامل ہو گئے۔
بشیر زیب آج کل بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں۔
پنجگورکے سیاسی رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2008 میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزامات کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بی ایس او (آزاد) کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا تھا۔
اس دوران گلزار امام نے بلوچ عسکریت پسند رہنما براہمداغ بگٹی کی تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) میں شمولیت اختیار کی اور کچھ عرصے بعد ہی انہیں بی آر اے مکران ریجن کا کمانڈر بنا دیا گیا۔
براہمداغ بگٹی سے علیحدگی
براہمداغ بگٹی ممتاز بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں جو بلوچ ری پبلکن آرمی ( بی آر اے) کے ساتھ ساتھ بلوچ ری پبلکن پارٹی (بی آر پی) نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں ۔
سن 2006 میں ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد براہمداغ بگٹی افغانستان منتقل ہو گئے تھے جہاں سے کچھ عرصے بعد وہ سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔
سن 2018 کے وسط میں گلزار امام کے براہمداغ بگٹی کے ساتھ مختلف معاملات پر اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے جس میں ایک اہم وجہ طبقے کی بنیاد پر قیادت تھی۔
اکتوبر 2018 میں بی آر اے کی جانب سے ایک اعلامیے میں گلزار امام پر ماورائے عدالت قتل اور بھتہ وصولی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں تنظیم سے نکالے جانے کا اعلان کیا گیا۔ یوں بی آراے دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک دھڑے کی سربراہی براہمداغ بگٹی جب کہ دوسرے دھڑے کی سربراہی گلزار امام کر رہے تھے۔
بی آر اے میں دھڑے بندی کے بعد گلزار امام نے ایک بیان میں یورپ میں مقیم براہمداغ بگٹی، حربیار مری اورمہران مری کا نام لیے بغیر بلوچ شورش میں شامل سرداروں پر کڑی تنقید کی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ "بلوچ تحریک کی وہ قیادت جو سردار گھرانوں پر مشتمل ہے، انہیں کارکنان کے ساتھ قبائلی رویہ برتنا ترک کرنا پڑے گا اور تنظیم کے اندر موجود مسائل کا حل قبائلی نہیں بلکہ سیاسی طریقۂ کار سے نکالنا پڑے گا۔"
مبصرین کے مطابق اپنے دھڑے کی تشکیل کے بعد گلزار امام مکران کی سطح پر خصوصاً پنجگور میں ایک اہم علیحدگی پسند رہنما کے طورپر ابھر کرسامنے آئے جب کہ براہمداغ بگٹی کا دھڑا کافی کمزور ہوا۔
گلزار امام نے بی آر اے کے اپنے دھڑے کو بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نامی مشترکہ محاذ کا بھی حصہ بنایا جو جولائی 2020 میں پاکستان میں سیکیورٹی اداروں اور چینی مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے تشکیل دیا گیاتھا۔
براس میں بلوچ علیحدگی پسند لیڈر اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ، بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی، گلزار امام بلوچ کی ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی چار تنظیمیں شامل تھیں۔
بی این اے کی تشکیل
رواں ماہ 11جنوری کو دو بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گلزار امام کی بی آر اے اورسرفراز بنگلزئی کی قیادت میں قائم یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے ایک دھڑے نے انضمام کرکے بی این اے نام کی ایک نئی علیحدگی پسند تنظیم کے قیام کا اعلان کیا۔
یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یوبی اے) کے سربراہ مہران مری ہیں جو بی ایل اے کے ایک دھڑے کے سربراہ حربیار مری کے بھائی اوربلوچ قوم پرست رہنما سردار خیربخش مری کے بیٹے ہیں۔ براہمداغ بگٹی اور حربیار مری کی طرح مہران مری بھی یورپ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بی این اے کی تشکیل کے اعلان کے موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ نئی تشکیل کردہ تنظیم براس نامی اتحاد کا حصہ ہو گی۔
گرفتاری کے اثرات
قانون نافذ کرنے والے ادارے گلزار امام کی گرفتاری کو بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک کے لیے ایک دھچکہ قرار دے رہے ہیں۔
گلزار امام کی گرفتاری کی اطلاعات کے دوران پنجگور میں سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ کے دوران بی این اے کے پنجگورہوشاب ریجن کے کمانڈر بابرایوب عرف عاجز گرفتار جب کہ بی این اے اوربی ایل اے کے متعدد عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔
بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی حامی ویب سائٹس کے مطابق بی این اے کے ترجمان نے اکتوبر میں ایک بیان جاری کیا تھا۔ اس بیان میں گروپ سے تعلق رکھنے والے دو عسکریت پسندوں رزاق بلوچ عرف پولین اور حمید بلوچ عرف میر جان پر کمانڈر ایوب کی گرفتاری میں معاونت کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس گرفتاری کے بعد دونوں رہنما روپوش ہو گئے تھے۔
کوئٹہ میں تعینات ایک اعلیٰ انٹیلی جنس افسر کا کہناہے کہ بشیر زیب اور علیحدگی پسند رہنما اللہ نذر بلوچ کے بعد گلزار امام اس وقت بلوچستان کی سطح پر جاری شورش کے اہم کمانڈر سمجھے جاتے تھے۔
ان کے بقول گلزار امام کی گرفتاری کا حال ہی میں تشکیل پانے والے بی این اے کے ساتھ ساتھ براس اوردیگر تنظیموں پربھی گہرا اثر پڑے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ رواں برس دو فروری کو پنجگور اور نوشکی میں فرنٹیئر کور (ایف سی) ہیڈ کوارٹرز پر بی ایل اے کے حملوں کے دوران جو علیحدگی پسند مارے گئے ان میں گلزار امام کے بھائی ناصر امام بھی شامل تھے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان کے مطابق ان حملوں اور اس کے بعد آپریشن میں 20 دہشت گرد مارے گئے تھے جب کہ نو سیکیورٹی اہل کار بھی جان کی بازی ہار گئے تھے۔
البتہ سیکیورٹی ماہرین اوربلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے وابستہ حلقوں کاکہناہے کہ گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچ مسلح تحریک پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔
سنگاپور میں قائم ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز نامی سیکیورٹی تھنک ٹینک سے وابستہ محقق عبدالباسط کہتے ہیں کہ مسلح تنظیموں کے لیے اہم کمانڈرز کی ہلاکت یا گرفتاریاں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچستان میں بی این اے کے نیٹ ورک کو تو دھچکہ لگا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس سے بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچے گا۔
اُنہوں نے 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے ماسٹر مائنڈ اسلم بلوچ عرف اچھو کی افغانستان کے شہر قندھار میں ہلاکت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے کا دھڑا اسلم اچھو کے جانشین بشیر زیب کی قیادت میں مزید منظم ہوا۔