پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کسی سیاسی رہنما کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ ملک میں ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ہیجان کی سی کیفیت پیدا کی گئی اور اب اس جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔
بدھ کو راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز میں پاکستان کے یومِ دفاع و شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ انہیں فخر ہے کہ وہ چھ سال پاکستان فوج کے سپہ سالار رہے ہیں۔ بطور آرمی چیف وہ آخری مرتبہ اس تقریب سے مخاطب ہورہے ہیں۔
ملک کے سیاسی حالات پر بات کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے کہا کہ ہماری فوج پر گاہے بگاہے تنقید کی جاتی ہے، جس کی بڑی وجہ 70 سال میں مختلف صورتوں میں فوج کی سیاست میں مداخلت ہے، جو غیر آئینی ہے۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ برس فروری میں فوج نے فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ تاہم اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنے کے بجائے چند حلقوں نے فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر غیرمناسب اور غیرشائستہ زبان استعمال کی۔
جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ فوج پر تنقید عوام اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ لیکن الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنی چاہیے۔ ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی اور اب اس جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سینئر فوجی قیادت کو غیرمناسب القابات سے پکارا گیا، فوج کی قیادت کچھ بھی کرسکتی ہے لیکن ملک کے مفادات کے خلاف نہیں جاسکتی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک بیرونی سازش ہو اور مسلح افواج ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں گی، یہ ناممکن ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اسیٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان مختلف جلسوں، پریس کانفرنسز اور انٹرویوز میں اسٹیبلشمنٹ پر بالواسطہ تنقید کرتے رہے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے وہ ہمیشہ ناکام ہوں گے۔ فوج کے پاس اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کے لیے مواقع اور وسائل موجود تھے لیکن فوج نے ملک کے مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا اور کوئی بھی منفی بیان دینے سے اجتناب کیا۔ لیکن صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
ان کے بقول وہ فوج اور اپنے خلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ پاکستان سب سے افضل ہے۔ افراد اور پارٹیاں آتے جاتے رہتے ہیں۔
آرمی چیف نے کہا کہ فوج نے اپنا کتھارسس شروع کردیا ہے۔ امید ہے سیاسی جماعتیں بھی اپنے رویے پر نظرثانی کریں گی۔ان کے بقول پاکستان میں ہر ادارے، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سب سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ہم سب کو غلطیوں سے سیکھنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے۔
جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے اور کوئی بھی ایک جماعت ملک کو اس بحران سے نہیں نکال سکتی۔ لہٰذا ملک میں سیاسی استحکام لازمی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی رہنما اپنی ذاتی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھیں اور ملک کو بحران سے نکالیں۔
انہوں نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں بعض جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے انتخابی نتائج کے نظام آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو بہانا بنا کر جیتنے والی جماعت کو 'سلیکٹڈ' کا لقب دیا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک جماعت نے دوسری جماعتوں کو 'امپورٹڈ' کا لقب دیا۔ ہمیں اس رویے کو ختم کرنا ہوگا۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے، ہر جماعت کو اپنی فتح اور شکست کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ تاکہ آئندہ الیکشن میں 'امپورٹڈ' اور 'سلیکٹڈ' حکومت کے بجائے 'الیکٹڈ' حکومت آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو عدم برداشت اور میں نہ مانوں کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔
انہوں نے سن 1971 میں پاکستان کے دولخت ہونے کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی، لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں 34 ہزار تھی، جن کا مقابلہ ڈھائی لاکھ بھارتی فوج اور دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا۔
واضح رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ چھ برس تک آرمی چیف رہنےکے بعد آئندہ ہفتے 29 نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں۔