امریکہ میں اس سال انتخابی روز 80 ملین سے زیادہ لوگوں کے پاس اس وفاقی شق کی بدولت انگریزی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں ووٹ ڈالنے کا آپشن موجود ہو گا، جو کچھ مخصوص گروپس کے لوگو ں کو ووٹنگ کے عمل میں لسانی معاونت کی ضمانتیں فراہم کرتی ہے ۔
اڈاہو کی Boise State University کے پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے محقق Gabe Osterhout کا کہنا ہے کہ اس خیال کا مقصد ان گروپس کو انتخابی عمل میں شامل کرنا تھا جو تاریخی طور پر اس سے خارج تھے اور مشن یہ تھا کہ اسے ان میں سے کچھ گروپس کے لئے مزید قابل رسائی بنایا جائے۔
ابتدائی ووٹنگ رائٹس ایکٹ- 1965 بنیادی طور پر جنوب میں افریقی امریکیوں کے حقوق پر مرکوز تھا ۔ اس میں 1975 میں توسیع کی گئی تاکہ کچھ مخصوص زبان بولنے والی اقلیتوں ، نیٹیو امریکی، الاسکا کے نیٹیوز، لاطینی اور ایشیائی امریکی گروپس کو انتخابی عمل میں شامل کیا جائے۔
وکلا ء کی کمیٹی فار سول رائٹس انڈر لاء کے ووٹنگ رائٹس کے پراجیکٹ سے وابستہ سینئیر سپیشل مشیر ، جم ٹکر کہتے ہیں کہ انگریزی زبان میں ووٹنگ کا مواد یا معلومات لازمی طور پر خواندگی کے ایک ٹسٹ کے طور پر کام کرتی ہیں جو ان لوگوں کے لئے ووٹ دینے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں جو اپنی آبائی زبان میں ممکن ہے پوری طرح سے خواندہ ہوں مگر انگریزی زبان نہ جانتے ہوں یا کسی بھی زبان میں خواندہ نہ ہوں ۔
ہر پانچ سال کے بعد مردم شماری کا بیورو یہ تعین کرتا ہے کہ اقلیتی زبان بولنے والے کس گروپ کو ان کی پرائمری زبان میں معلومات فراہم کی جانی چاہئیں ۔ یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ آیا کسی علاقے میں 5 فیصد سے زیادہ اہل ووٹرز محدود سطح کی انگلش بولتے ہیں یا کیا کسی انتخابی حلقے میں 10 ہزار سے زیادہ اہل ووٹرز انگریزی زبان میں محدود مہارت رکھتے ہیں ۔
اس کے بعد مقامی انتخابی عہدے داروں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ اس مخصوص زبان میں ووٹنگ کا مواد فراہم کریں ۔
دسمبر 2021 میں مردم شماری بیورو نے 331 ایسے انتخابی حلقوں کی فہرست تیار کی تھی جو 2022 کے مڈ ٹرم انتخابات سے قبل اس حد کو پورا کرتے ہیں ۔ یہ 2016 کے بعد سے وفاقی شق میں شامل کئے کئے انتخابی حلقوں کی سب سے بڑی تعداد ہے ۔
شامل کئے گئے انتخابی حلقے کاونٹیز اور میونسپلٹیز ہیں لیکن ان میں کچھ ریاستیں بھی شامل ہیں ۔ کیلی فورنیا، فلوریڈا اور ٹکساس ہر ریاستی انتخاب میں ووٹنگ کا مواد ہسپانوی زبان میں بھی فراہم کرتی ہیں اگرچہ ان ریاستوں کی کچھ آبادیوں کے لئے اپنے مقامی امیدواروں کے لئے دو زبانوں میں بیلٹس کی فراہمی لازمی نہیں ہے ۔
امریکہ میں ووٹ ڈالنے کی عمر کے 80 ملین سےزیادہ لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں عہدے داروں سے اقلیتی زبان بولنے والوں کے لئے لسانی معاونت فراہم کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے ۔
اگرچہ امریکی محکمہ انصاف اس ایکٹ کی شرائط پورا کرنے والے انتخابی حلقوں کو یہ بتاتا ہے کہ وہ ان ضابطوں پر پورے اترتے ہیں اور انہیں متعلقہ ووٹرز کو لسانی معاونت فراہم کرنی چاہئے تاہم اس ضابطے پرعملدرآمد کاکوئی ٹھوس طریقہ موجود نہیں ہے۔
Osterhout کہتے ہیں کہ اگر ہم ووٹ ڈالنے کے لئے نکلنے والوں کے انتخابات پر پڑنے والے اثر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمیں واقعی یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کاونٹیز جو ان ضابطوں پر پوری اترتی ہیں آیا اس پر عمل درآمد کر رہی ہیں اور دوسری جانب ممکن ہے کہ کچھ کاونٹیز، یا شہر یا قصبے ایسے ہوں جو ان ضابطوں کی شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن وہ بہر طور یہ مواد پیش کرنے کا فیصلہ کریں ۔
تاہم نومبر 1996 اور 2000 میں ووٹنگ کی رجسٹریشن اور اعداد و شمار کے تجزئے سے ووٹنگ رائٹس ایکٹ کی لسانی شقوں میں شامل کی گئی لسانی اقلیتوں کی ووٹنگ کی شرح پر نمایاں اور مثبت اثرات کے شواہد سامنے آئے ۔
مثال کے طور پر پروفیسر Michael Jones-Correa اور اسرائیل کے Waismel-Manor کو معلوم ہوا کہ جن کاونٹیز میں ووٹنگ رائٹس ایکٹ کے تحت لسانی تقاضوں کو پورا کیا گیا وہاں لاطینی لوگوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں ان کاونٹیز کی نسبت 11 فیصد اضافہ ہوا جہاں زبان کے حوالے سے معاونت فراہم نہیں کی گئی تھی۔
ووٹنگ رائٹس ایکٹ کی مدت کو ابتدا ئی طور پر 1970 میں ختم ہونا تھا لیکن پانچ بار بڑی دو جماعتی اکثریتوں نے اس کا دوبارہ اختیار دیا ۔ اسے 2006 میں 25 سال کے لئے دوبارہ نافذ کیا گیا ہے ۔
Osterhout کا خیال ہے کہ اگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی آبائی زبان میں ووٹ ڈالنے کے موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتی تو بھی یہ کوشش رائیگاں نہیں جاتی کیوں کہ ووٹنگ کو مزید قابل رسائی بنانے کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا ایک اخلاقی فائدہ ضرور ہوتا ہے۔