ایران کے فٹ بال کے معروف کھلاڑی علی داعی نے پیر کے روز کہا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں جاری مظاہروں کی حمایت کرنے پر انہیں دھمکیاں دی گئی ہیں۔
کرد نژاد ایرانی 22 سالہ امینی کو 16 ستمبر کو ایران کی حکومت کے مقرر کردہ اخلاقی ضابطوں کی پابندی کرانے والی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ تہران جا رہی تھی۔
پولیس نے مہسا پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اپنے سر کو درست طور پر ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔وہ تین روز بعد مبینہ طور پر پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
داعی ایران کے معروف فٹ بال کھلاڑی ہیں اور ان کے کریڈٹ پر 109 گول اور 1998 میں عالمی کپ فٹ بال کی فتح ہے۔
انہوں نے مہسا کی ہلاکت پر عوامی احتجاج کے خلاف ایرانی حکام کے پرتشدد کریک ڈاؤن کی وجہ سے قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
داعی نے انسٹاگرام پر ایک بیان میں کہاہے کہ ’مجھے اپنے اور اپنے خاندان کے خلاف حالیہ مہینوں اور دنوں میں کچھ تنظیموں، میڈیا اور نامعلوم افراد کی جانب سے متعدد دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے انسانیت، غیرت ، حب الوطنی اور آزادی سکھائی گئی ہے۔ آپ ایسی دھمکیوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
داعی نے ایرانی حکومت سے مظاہروں کے دوران گرفتار کیے جانے والے افراد کی غیر مشروط رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے نومبر کے شروع میں کہا تھا کہ فٹ بال ورلڈ کپ کے منتظمین کی جانب سے دعوت ملنے کے باوجود وہ قطر نہیں جائیں گے کیونکہ وہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ رہنا اور ان تمام لوگوں سے ہمدردی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں جو اس احتجاج کے دوران اپنے پیارے کھو چکے ہیں۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایران کی فٹ بال ٹیم 1998 کی تاریخ کو دوہراتے ہوئے منگل کو امریکہ کا سامنا کر رہی ہے۔
فٹ بال میچوں کے سلسلے میں انتہائی سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں کیونکہ ایران میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں جو 1979 کے انقلاب کے بعد سے حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔
احتجاج کے ابتدائی دنوں میں، جب داعی بیرون ملک سفر سے واپس آ رہے تھے، حکام نے ا ن کا پاسپورٹ ضبط کر لیا تھا، تاہم بعد میں انہیں واپس کر دیا گیاتھا۔
ایرانی سیکیورٹی عہدے داروں نے مظاہروں کی حمایت کرنے پر اور ایک اور کرد نژار ایرنی فٹ بالر دوریا غفوری کو گزشتہ ہفتے گرفتار کیا ہے۔
ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ بعد میں غفوری کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن ناروے میں مقیم کرد حقوق کے گروپ ہنگاو نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اب تہران کی ایک جیل میں منتقل کر دیا ہے۔
اس خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔