امریکہ نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ وہ ایندھن کی قیمتوں پر حکومتوں کی مشکلات کو سمجھتا ہے اور اس ضمن میں امریکہ نے فی الوقت ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کر رکھی جس کے تحت روس سسے دوسرے ملکوں کو تیل برآمد نہ کیا جا سکے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے پاکستان کے روس سے رعایتی نرخوں پر تیل خریدنے کے اعلان کے بعد اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ ان خبروں سے آگاہ ہے اور امریکہ نے دوسرے ملکوں پر روسی توانائی کی درآمدات پر فی الحال کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔
وائس آف امریکہ کی اردو سروس کی جانب سے اس سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کا نام لیے بغیر بتایا ہے امریکہ ایندھن کی قیمتوں سے متعلق مختلف ملکوں کی مشکلات کو سمجھتا ہے۔
’’ ہمھیں اس دباو کا احساس ہے جس کا سامنا حکومتوں کو آسانی سے خرید میں آنے والے ایندھن کی خریداری میں ہے۔‘‘
محکمہ خارجہ نے مزید کہا ہے کہ ہر ملک کو وقت اور حالات کے مطابق خود فیصلے کرنا ہیں۔
’’ ہم اس بارے میں بہت واضح ہیں کہ ہر ملک کو اپنے حالات کے مطابق، توانائی کے ذرائع کی درآمدات کے بارے میں خود کوئی راستہ اختیار کرنا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ روس پاکستان کو کم قیمت پر تیل فراہم کرے گا۔ اپنے دورہ ماسکو سے متعلق پیر کو میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ یہ دورہ توقعات سے زیادہ کامیاب رہا اور روس نے پاکستان کو رعایتی قیمت پر خام تیل اور قابل استعمال تیل جیسے پیٹرول اور ڈیزل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے سوال پر مصدق ملک نے کہا کہ روس کے ساتھ تیل کی فراہمی کی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں البتہ جنوری میں معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کو تیل کی فوری فراہمی شروع ہوجائے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ نے باور کرایا کہ روس توانائی کی عالمی مارکیٹ میں قابل بھروسہ فراہم کنندہ نہیں ہے۔
’’یوکرین اور یورپ میں روس کے اقدامات نے واضح طور پر یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ توانائی کا قابل بھروسہ سپلائر نہیں ہے، اور ہم روس سے توانائی کی فراہمی پر طویل مدتی انحصار کو کم کرنے کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔‘‘
ماہر امور معاشیات پروفیسر ثاقب رضاوی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ معاشی دباو میں روس سے تیل کی خریداری پاکستان کے لیے مدد گار ہو سکتی ہے۔
ا ’’اگر پاکستان روس سے رعایتی قیمتوں پر پیٹرولیم مصنوعات خریدنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اس سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر خرچے میں کمی آئے گی جو کہ پاکستان کے کل درآمدی بل کا بڑا حصہ ہے۔ اس طرح پاکستان کچھ زرمبادلہ بچا سکے گا۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے پاکستانی روپے پر دباؤ بھی کم ہو سکتا ہے۔ جب کہ اس سے پاکستان کی درآمدات کے ذرائع کو متنوع بنانے میں مدد ملے گی۔ مجموعی طور پر یہ معیشت کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہوگی۔
اس سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ عالمی توانائی کی منڈیوں پر یوکرین کے خلاف پوٹن کی جارحیت کی جنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
خیال رہے کہ بھارت روس سے کم قیمت پر تیل حاصل کر رہا ہے۔ روس یوکرین جنگ کے باعث پیدا شدہ صورتِ حال میں بھارت نے روس سے اپنی تیل کی درآمد کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
پروفیسر ثاقب رضاوی کے مطابق روسی تیل خریدنے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر شاید کوئی خاص اثر نہ پڑے کیونکہ بھارت پہلے ہی روس سے تیل خرید رہا ہے اور امریکہ نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔