رسائی کے لنکس

اسلام آباد: سیکیورٹی چیکنگ کے دوران خودکش دھماکا، پولیس اہلکار سمیت تین افراد ہلاک


پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سیکیورٹی چیکنگ کے دوران گاڑی میں ہونے والے دھماکے میں ایک پولیس اہلکار اور گاڑی میں موجود دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکا خود کش تھا۔

اسلام آباد پولیس نے جمعے کو جاری کردہ ایک بیان میں بتایا ہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین فور میں سیکیورٹی چیکنگ کے دوران خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

پولیس کا کہناہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں پولیس ہیڈکانسٹیبل عدیل حسین ہلاک ہوگئے ہیں۔

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔

تنظیم کے ترجمان محمد خراسانی نے بیان میں دعویٰ کیا کہ حملے میں ایک درجن سے زائد پولیس اہل کار ہلاک و زخمی ہوئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ حملہ تحریکِ کے رہنما عمر خالد خراسانی کے قتل کا انتقام لینے کے لیے کی گئی۔

عمر خالد خراسانی رواں برس اگست میں افغان صوبے پکتیکا میں ایک پراسرار بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ بروقت کارروائی کے نتیجے میں شہر دہشت گردی کے بڑے حملے سے محفوظ رہا۔ پولیس کے بقول دہشت گرد پولیس اور عوام پر حملہ کرنے کے لیے گنجان آباد علاقے میں دھماکا کرنا چاہتے تھے۔

ڈی آئی جی آپریشنز سہیل ظفر چٹھہ نے دھماکے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق تباہ ہونے والی گاڑی میں ایک مرد اور خاتون بھی موجود تھیں۔

گاڑی میں دھماکہ خیز مواد کی مقدار جاننے کے لیے پولیس کی فارنزک ٹیموں نے شواہد حاصل کرلیے ہیں۔ اس کے علاوہ قریبی گھروں سے سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی حاصل کرلی گئی ہیں جن میں لاہور رجسٹرڈ پیلے رنگ کی مہران ٹیکسی گاڑی دھماکے کے مقام کی طرف جاتی نظر آرہی ہے۔

ایک اور فوٹیج میں گاڑی کے قریب کھڑے پولیس اہلکار دھماکے کی شدت سے زمین پر گرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

ادھر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمعے کی صبح بارود سے بھری گاڑی راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوئی۔ ایگل اسکواڈ نے دوران گشت گاڑی کو مشکوک سمجھ کر روکا۔

ان کے بقول گاڑی میں ایک مرد اور خاتون دہشت گرد سوار تھے۔ اگر اس گاڑی کو نہ روکا جاتا تو یہ اپنے کسی 'ہائی ویلیو ٹارگٹ' پر ہوتی اور بہت بڑا نقصان ہوتا۔

وزیرِداخلہ نے بتایا کہ ''اس دھماکے میں دونوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں۔'' انہوں نے بتایا کہ پولیس کانسٹیبل جیسے ہی گاڑی کی تلاشی کے لیے آگے بڑھا، گاڑی میں موجود لوگوں نے اسے دھماکے سے اڑا دیا۔

رانا ثناءاللہ نے کہا کہ دھماکے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے رپورٹ طلب کر لی

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد دھماکے کی رپورٹ طلب کر تے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک پوری قوم مل کر جنگ جاری رکھے گی۔

شہباز شریف نے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے بروقت گاڑی روکنے اور بڑے جانی نقصان سے بچنے پر اظہارِ تشکر بھی کیا۔

وزیرِ اعظم نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ اس واقعے کے دوران بہادری کا مظاہرہ کرنے والے اہلکاروں کو انعامات اور تعریفی اسناد سے نوازا جائے۔

سربراہ تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اسلام آباد دھماکے کی مذمت کی ہے۔

اپنی ٹوئٹ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بگڑ رہی ہے جو اُن کے بقول 'امپورٹڈ حکومت' کی نااہلی ہے۔

عینی شاہد نے کیا دیکھا؟

ایک عینی شاہد قاسم خان نے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کو بتایا کہ وہ دھماکے کے مقام سے کچھ فاصلے پر تھے کہ اچانک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ابتدائی طور پر ہم سمجھے کے بجلی کے ٹرانسفارمر میں دھماکا ہوا ہے لیکن اسی وقت سڑک پر گاڑی جلتی ہوئی نظر آئی جس کے قریب ہی پولیس اہلکار مردہ اور زخمی حالت میں موجود تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک شخص کا اوپر والا دھڑ قریب کھڑی گاڑی میں جا کر گرا جس کے بعد ہم نے زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کا کام شروع کردیا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر فائرنگ کے واقعے میں محفوظ

دریں اثنا جمعے کو پشاور میں ڈپٹی اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی فائرنگ کے ایک واقعے میں محفوظ رہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ڈپٹی اسپیکر محمود جان پشاور کے نواحی علاقے شگئی میں ایک عوامی اجتماع میں شریک تھے کہ وہاں نامعلوم افراد نے فائرنگ کردی۔

پولیس حکام کے مطابق پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے جب کہ نامعلوم شر پسندوں کو گرفتار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں انسدادِ دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) کے سینٹر میں قید دہشت گردوں نے ایک سیکیورٹی اہلکار کو قابو کر کے کئی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔

اس کے بعد سیکیورٹی فورسز اور کمانڈوز نے آپریشن کر کے سینٹر کو کلیئر کیا تھا۔اس دوران آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور 24 عسکریت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔

XS
SM
MD
LG