رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا: سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں میں جھڑپ، تین اہل کار ہلاک متعدد زخمی


افٖغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع وزیرستان کے علاقے میں ایک عرصے سے دہشت گرد کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
افٖغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع وزیرستان کے علاقے میں ایک عرصے سے دہشت گرد کارروائیاں ہو رہی ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کا تسلسل جاری ہے ۔ تشدد کے تازہ ترین دو واقعات میں ضلع کرم کے سرحدی علاقے میں عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں تین سیکیورٹی اہل کار ہلاک اور دس زخمی ہو گئے جب کہ جنوبی وزیرستان میں ایک چیک پوسٹ پر تعینات سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے ایک گاڑی پر فائرنگ سے گاڑی میں سوار تین افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے ۔

سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے اراوالی میں ہوئی ۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں جھڑپ کے نتیجے میں تین اہل کاروں کی ہلاکت اور دس کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں 2 دہشت گرد بھی مارے گئےاور ان سے ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کیا گیا۔

سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث تھے۔ بیان کے مطابق اس جھڑپ میں ایک صوبیدار ، ایک نائیک اور ایک سپاہی ہلاک ہوا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کا علاقے میں کلیرنس آپریشن جاری ہے، اور فوج دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پر عزم ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ زخمیوں کو قریبی ملٹری اسپتال منتقل کیا گیاہے۔

ابھی تک کسی نے سیکیورٹی فورسز پر مبینہ حملے یا جھڑپ کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر سول انتظامی عہدیداروں اور قبائلی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم کے جنگجوؤں تھے جو وقتا فوقتا اس قسم کے پر تشدد حملے کرتے رہتے ہیں۔

جنوبی وزیرستان میں گاڑی پر فائرنگ

جنوبی وزیرستان میں جمعرات کی صبح سیکیورٹی فورسز نے ایک نان کسٹم پیڈ کار کو روکنے کا اشارہ کیا لیکن جب گاڑی نہیں رکی تو سیکیورٹی فورسز نے اس پر فائرنگ کی جس سے گاڑی میں سوار تین افراد کو گولیاں لگیں۔ان میں سے دو افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ تیسرا شدید زخمی ہوا۔

پولیس اور سول انتظامی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی نعسشیں اور زخمی کو سول اسپتال سرویکئی منتقل کردیا گیا ہے اور اس واقعہ کی مزید تحقیقات کی جاری رہی ہیں ۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی دین محسود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چند روز قبل قبائلی مشیروں اور انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور ساؤتھ کے ایک مشترکہ جرگے میں گاڑیوں میں کالے شیشوں کے استعمال پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہوا تھا اور تمام لوگوں کو 27 دسمبر تک گاڑیوں سے کالے شیشے ہٹانے کی ہدایت کی گئی تھی ۔ اس سلسلے میں چیک پوسٹوں پر بینرز لگائے گئے ہیں جن میں لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں کے کالے شیشے صاف کر دیں تاکہ پولیس اور فورسز کو گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگ دکھائی دے سکیں۔ یہ اقدام دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

27 دسمبر کے بعد سیکیورٹی فورسز نے کالے شیشے والی گاڑیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا اور جمعرات کو جس گاڑی پر سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی، اس کے شیشے کالے تھے اور رکنے کا اشارہ کیے جانے کے باوجود وہ رکی نہیں تھی۔

XS
SM
MD
LG