خواتین کے غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے لیے کام کرنے پر پابندی کسے متعلق طالبان کے تازہ ترین حکم نامے نے معاشی تباہی کا سامنا کرنے والے ملک کے خلاف نہ صرف بین الاقوامی مذمت کو جنم دیا ہےبلکہ اس سے طالبان کے اندر پھوٹ پڑنے کا بھی انکشاف ہوا ہے، جس میں افغانستان کے حکمرانوں اور عوام کے لیے ممکنہ طور پر بہت زیادہ خطرات ہیں۔
2022 کا آخری ہفتہ 24 سالہ افغان امدادی کارکن سحر کے لیے خوفناک صدمے کے ساتھ شروع ہوا ۔جو ایک این جی او کی پروگرام مینیجرہیں، سحر سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنااصل نام، یا تنظیم کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔
اس پریشانی کا آغاز وزارت اقتصادیات کی جانب سے طالبان کا تازہ ترین حکم نامے سے ہوا جس میں ’اسلامی حجاب کی پابندی سے متعلق سنگین شکایات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے، طالبان نے "تمام قومی اور بین الاقوامی اداروں کو حکم دیا کہ وہ اگلا نوٹس ملنے تک فوری طور پر خواتین کو کام کرنے سے روک دیں۔ اس میں کہا گیا تھا کہ تعمیل کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے۔
سحر نے کابل سے ایک فون انٹرویو میں کہا کہ میں نے فوراً اپنا کمپیوٹر بند کر دیا اور کام کرنا چھوڑ دیا،میں اپنے آنسو نہیں روک سکی۔میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہو گا۔ اس دن، میں نے اپنا سب سے اہم حق کھو دیا، کام کرنے کا حق۔
یہ حکم نامہ سحر کے 9 افراد پر مشتمل خاندان کے لیے معاشی تباہی کی علامت تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ’طالبان کے قبضے کے بعد میرے خاندان کے تمام مرد افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ میں اکیلی کمانے والی تھی۔اور میں کرایہ، خوراک، ادویات اور اپنے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کے تمام اخراجات اٹھا رہی تھی۔ اب ہم سب متاثر ہیں، پورا ملک متاثر ہے۔
نیا سال طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں کیسا ہوگا؟
جیسے ہی دنیا نےروشنیوں اور آتش بازی کے ساتھ 2023 کا استقبال کیا، افغانستان ایک تاریک رات میں ڈوب گیا۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران، ملک کے قدامت پسند حکمرانوں نے ’’طالبان ‘‘ کےاس بیانیے کو ناکام بنا دیا ہےجو افغانستان سے 2021 میں امریکی انخلا کے لیے مذاکرات کے دوران پیش کیا گیا تھا۔
اب وہ اپنے لوگوں کی زندگیاں برباد کرنے، خواتین کو عوامی زندگی سے مٹا دینے اور ملک کو تباہی کی جانب دھکیلنے پر تلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ملک کے اندر عوامی غم و غصہ بڑھ رہا ہے، اختلاف رائے کے خلاف پکڑ دحکڑ کی مہم کے باوجود احتجاج اور واک آؤٹ سامنے آرہا ہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سخت گیر پالیسیوں پر طالبان کے اندر پھوٹ پڑنےکے بڑھتے ہوئے آثار ہیں۔اگر یہ کسی فیصلہ کن اہم نقطہ تک پہنچ جاتے ہیں، تو ایک ایسے ملک میں جہاں بندوق کی نوک پر اختلافات کو حل کرنے کی تاریخ ہے، یہاں تک کہ خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ بہت زیادہ داؤ لگ سکتا ہے۔ اور جیسا کہ تاریخ نے دکھایا ہےاس کےبین الاقوامی برادری کے لیے بھی نتائج ہو سکتے ہیں –
خواتین پر پابندیاں کیا طالبان کو تقسیم کر رہی ہیں؟
خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی کے حکم نامے کے جاری ہونے کے بعد سے طالبان کی صفوں میں اختلافات کی اطلاعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ باخبر ذرائع سے موصول ہوئی ہیں۔
افغانستان کے لیے سابق امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن ڈی سی سے ایک فون انٹرویو میں کہا، طالبان کے اندر یہ ایک اقلیتی نظریہ ہے۔ اکثریت، یہاں تک کہ اس میں قیادت بھی شامل ہے، اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہے۔
دوحہ میں فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کرنے والی امریکی ٹیم کے سربراہ کے طور پر، خلیل زاد نے قطری دارالحکومت میں طالبان کے سینئر عہدیداروں کے ساتھ مہینوں تک مذاکرات کیے تھے۔
خلیل زاد، 2021 میں اپنے خصوصی ایلچی کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی کچھ طالبان عہدیداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں جن کا نام بتانے سےانہوں نے انکار کیا ہے۔
’’میں نے ماضی میں ان سے بات کی تھی اور اب میں ان سے بات کر رہا ہوں اور وہ اس فیصلے کے سخت خلاف ہیں‘‘۔ خلیل زاد نے زور دے کر کہا۔
تاہم، یہ مسئلہ زیادہ اعتدال پسند طالبان عہدہ داروں اور قندھار کے جنوبی شہر میں مقیم طالبان کے جلاوطن امیر، ہبت اللہ اخونزادہ کے قدامت پسندوں کے اندرونی حلقے کے درمیان منقسم دکھائی دیتا ہے۔
دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والےپرانےطالبان کو جنیں ’قندھاریوں‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر طالبان کی سب سےزیادہ متنازعہ پالیسیوں کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، جن میں خواتین کی تعلیم پر پابندیاں اور کوڑے مارنے سمیت جسمانی سزا کو دوبارہ متعارف کراناشامل ہیں۔
کابل میں طالبان عہدہ داروں کے برعکس، قندھاری شاذ و نادر ہی، باہر کے لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔
خلیل زاد نے کہا۔ ’’میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں جنہوں نے این جی اوز کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔ میں ان سے ڈیل نہیں کرتا۔ کوئی صرف قیاس ہی کر سکتا ہے کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں اور ان کے خیالات پر کیا اثر انداز ہوتا ہے ۔ لیکن قیاس آرائیاں مفید ثابت نہیں ہو سکتیں۔‘‘
طالبان کی صفوں میں اختلافات کی پہلی عوامی علامت
مارچ 2022 میں خواتین کی تعلیم پر تحریک کے متنازعہ موقف پر سامنے آئی تھی۔
موسم سرما کی تعطیلات کے بعد 23 مارچ کو افغان اسکولوں کے دوبارہ کھلنے کے شیڈول سے چند گھنٹے قبل، جب افغان لڑکیاں اسکولوں کے دروازے پر انتظار کر رہی تھیں، طالبان نے اچانک اپنا موقف بدل دیا۔ جب آخری لمحات میں پابندی کا حکم اسکولوں تک پہنچا تو وزارت تعلیم کی طرف سے مدعو کردہ نیوز ٹیموں نے اپنے اسکول یونیفارم میں مایوسی سے رو تی ہوئے لڑکیوں کی دل توڑنے والی شہادتیں ریکارڈ کیں۔
پریس کےسامنے اپنے فوری ردعمل میں،صحافیوں کے گرما گرم سوالات کا دھچکامحسوس کر نے والےطالبان اہل کار پابندی کے لیے اسلامی اصولوں کا جواز دیتے ہوئے اس کے لیے تیار نظر نہٰیں آتے تھے۔
عوامی اختلاف رائے کے ایک غیر معمولی مظاہرے میں، طالبان کے نائب وزیر خارجہ، شیر محمد عباس ستانکزئی نے بعد میں کابل میں طالبان کے اعلیٰ عہدہ داروں اور رہنماؤں کے ایک اجتماع سے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں لڑکیوں کے ہائی اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہاتھا کہ کسی کے پاس ایسی کوئی مذہبی وجہ نہیں ہے جو لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنے کا جواز فراہم کر سکے۔
کیا اس طرح کی مخالف آوازیں کوئی تبدیلی لاسکتی ہیں؟
دی افغان آئی کے بانی ، تجزیہ کار احمد ولید کاکڑ کہتے ہیں،’’ گزشتہ 20 سالوں کے دوران طالبان نے اپنی ساخت میں اس حد تک نمایاں تبدیلی کی ہے کہ اب پابندی کی وکالت کرنے والے، یا خواتین کی جدید تعلیم سے دشمنی رکھنے والے،ایک اقلیت ہیں۔ تاہم وہ ایک طاقتور اور بااثر اقلیت ہیں جو سب سے اوپر امیر کے گرد جمع ہیں.’’
لیکن وہ مزید کہتے ہیں،’’ طالبان کے اندر دوسرے رہنما بھی ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اس پابندی کے خلاف ہیں۔لہٰذا اصل سوال یہ ہے کہ فیصلہ سازی کا موجودہ انداز اور ان فیصلوں کی نوعیت کس حد تک ملک بھر میں زبردست مخالفت، بلکہ خود طالبان کے اندر بڑھتی ہوئی مخالفت کے باوجود برقرار رہ سکتی ہے۔‘‘
ایک ایسے وقت میں جب اندرونی تقسیم بڑھ رہی ہے، کاکڑ کے خیال میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ طالبان کو توڑ دیں۔’’اپنے قیام سے لے کر آج تک، طالبان نظریاتی اور مذہبی طور پر لیڈر کی اطاعت کے لیے پرعزم ہیں یہاں تک کہ اس وقت بھی جب وہ رہنما سے اختلاف کرتے ہیں۔ یہ ایک مذہبی عزم ہے،‘‘ کاکڑ نے وضاحت کی۔’’صرف اس وقت لاگو نہیں ہوتا جب لیڈر کوئی اسلام مخالف کام کرے۔‘‘
کیا سحر اب مستقبل سے نا امید ہیں؟
کابل میں سحر ان پروگراموں کے لیے فنڈز کے بارے میں فکر مند ہیں جو وہ چلاتی ہیں۔ ’’ہم طویل مدتی منصوبوں کی تیاری کر رہے تھے۔ ہم نے 2023 کے لیے اپنا پروپوزل پہلے ہی عطیہ دہندگان کو دے چکے ہیں، ہم فنڈز حاصل کرنے کے بارے میں پر امید تھے۔لیکن طالبان کے اس فیصلے سے، عطیہ دہندگان اپنی فنڈنگ جاری رکھنے کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں۔‘‘
سحر مایوسی کے سامنے ہار ماننے سے انکار کرتی ہیں۔ ’’میری درخواست دنیا بھر کے لوگوں سے، عطیہ دہندگان سے ہے، افغان خواتین سے دست بر دار نہ ہوں۔ یہ ایک بہت مشکل صورت حال ہے، لیکن میں ہمت نہیں ہاروں گی،میں 2023 کے لیے پر امید ہوں، اس سے بہتر دن آئیں گے۔ افغانستان کی خواتین کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔"
یہ اسٹوری ایجنسی فرانس پریس کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔