اسرائیل میں حال ہی میں وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی کابینہ کے ایک انتہائی قوم پرست وزیر بین گویر کے یروشلم میں مقدس مقامات کے دورے پر عالمی سطح پر ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی وزیر بین گویر کے دورے پر جہاں فلسطینی وزراتِ خارجہ نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے وہیں گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے متحدہ عرب امارات نے بھی اس دورے کی مذمت کی ہے۔
متحدہ عرب امارات اور چین نے حالیہ صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس معاملے پر جمعرات کو سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔
اسی طرح حال ہی میں اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے والے مسلم ملک ترکیے نے بھی اس دورے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر کے دورے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن اور مصر کے علاوہ سعودی عرب نے بھی اسرائیلی وزیر کے دورے سے پیدا ہونے والے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں بھی اسرائیلی وزیر کے مسجد اقصیٰ کے دورے کو بلا جواز قرار دیا گیاہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کی کابینہ میں قومی سلامتی وزیر بین گویر کا دورہ مقدس مقامات سے متعلق طے شدہ صورتِ حال سے انحراف نہیں ہے تاہم اس دورے کے باعث اسرائیل کو اپنے اتحادیوں اور مخالفین دنوں ہی کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
تاریخی پس منظر
اسرائیل کے وزیر بین گویر نے جس کمپاؤنڈ کا دورہ کیا ہے اسے مسلمان اور یہودی دونو ں ہی مقدس تصور کرتے ہیں۔ 35 ایکڑ پر پھیلے اس وسیع احاطے کو مسلمان مسجدِ اقصیٰ یا حرم الشریف اور یہودی 'ٹیمپل ماؤنٹ' کہتے ہیں۔
مشرقی یروشلم کے قدیم شہر کے اس حصے کو مسیحی، یہودی اور مسلمان تینوں ہی مقدس مانتے ہیں۔اس احاطے ہی میں قبۃ الصخرا یا 'ڈوم آف دی راک' بھی ہے۔
اسی احاطے میں قبۃ الصخرا کے سامنے ٹیمپل ماؤنٹ کے جنوب میں ایک نقرئی (سلور) گنبد والی عمارت ہے جو بنیادی طور پر مسجد اقصیٰ ہے۔ اسے 'قبلی مسجد' بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ مسلمان اس پورے احاطے ہی کو الاقصیٰ کہتے ہیں۔
مسلمانوں کے نزدیک مسجدِ اقصیٰ مکہ میں خانہ کعبہ اور مدینہ میں مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
اس احاطے کے مغرب میں 'دیوارِ گریہ' ہے جہاں یہودی عبادت کرتے ہیں اور زائرین بھی یہاں آتے ہیں۔یہودیوں کی تاریخی روایات کے مطابق یہ دیوار اور اس کے ارد گرد کی تعمیرات اس بڑے معبد 'ٹیمپل ماؤنٹ' کی باقیات ہیں جہاں یہودیوں کے مقدس معبد قائم تھے جنہیں پہلے بابلیوں اور بعد میں بازنطینیوں نے منہدم کر دیا تھا۔
چوں کہ یہ دیوار بھی اب اس احاطے کی بڑی دیواروں میں شامل ہو چکی ہے جس میں مسلمانوں کی تعمیرات قبۃ الصخرا اور مسجدِ اقصیٰ بھی شامل ہیں، اس لیے دیوار پر اختیار اور یہاں رسائی کے حوالے سے عربوں اور یہودیوں میں تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
’اسٹیٹس کو‘ کیا ہے؟
اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اُردن سے مشرقی یروشلم اور قدیم شہر کا علاقہ حاصل کر لیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے اسے متحدہ یروشلم قرار دے کر اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو تاحال بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
البتہ امریکہ، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرچکا ہے اور اس نے اپنا سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا ہے۔
مشرقی یروشلم اسرائیل کے زیرِ انتظام آنے کے بعد الاقصیٰ کو معاہدے کے تحت ایک ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا جس کا انتظام اُردن کے پاس ہے۔
قبۃ الصخرا اور اقصیٰ مسجد دونوں اس ٹرسٹ (وقف) کے زیرِ انتظام آتے ہیں۔ سن 1994 میں ہونے والے معاہدے میں اسرائیل نے اس حوالے سے ایک بار پھر اُردن کا کردار تسلیم کیا۔
اس احاطے میں اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز موجود رہتی ہیں اور وقف کے ساتھ معاونت بھی کرتی ہیں۔ یہاں مسیحیوں اور یہودیوں کو داخلے کی اجازت ہے۔
لیکن معاہدے کے تحت صرف مسلمان ہی عبادت کر سکتے ہیں۔ اس معاہدے کو مشرقی یروشلم کے احاطے میں طے شدہ صورتِ حال یا ’اسٹیٹس کو‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اس طے شدہ صورتِ حال کے باوجود مسجدِ اقصی یا ٹیمپل ماؤنٹ کے احاطے پر تنازعات سامنے آتے رہے ہیں جو ماضی میں پُرتشدد تصادم کی شکل بھی اختیار کرچکے ہیں۔
سن 2000 میں اس وقت کےاسرائیل کے قائدِ حزبِ اختلاف ایریل شیرون کے مسجدِ اقصیٰ کے دورے کے بعد ہونے والے تصادم کے بعد فلسطینیوں کا دوسرا انتفادہ شروع ہوا تھا۔
اسی احاطے کے مقدس مقامات پر اسرائیلی فورسز اور فلسطینی مظاہرین کے درمیان تصادم کی وجہ سے 2021 میں حماس اور اسرائیل کے مابین 11 روزہ تک جنگ ہوئی تھی۔
حالیہ تنازع کیوں؟
حالیہ تنازع کا بنیادی نکتہ بھی اسرائیلی وزیر بین گویر کا مقدس مقامات کا دورہ ہے۔بین گویر اسرائیلی حکومتی اتحاد میں شامل انتہائی قوم پرست مذہبی تنظیم اور نیتن یاہو کی کابینہ کے وزیر ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بین گویر کو ماضی میں اشتعال انگیزی پر سزا ہوچکی ہے اور ان پر شدت پسند یہودی گروپ کی حمایت کے الزامات بھی ہیں۔ وہ اپنے بیانات میں مسجدِ اقصی پر معاہدے کے مطابق طے شدہ حالات یا 'اسٹیٹس کو' تبدیل کرنے کے بھی حامی ہیں۔
اسرائیل کی پولیس معاہدے کے مطابق مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں مسلمانوں کے سوا کسی اور گروہ پر عائد عبادت کی پابندی پر عمل درآمد کی ذمے دار ہے۔ موجودہ حکومت میں بین گویر کو قومی سلامتی کا وزیر بنایا گیا ہے اور اسرائیل کی پولیس بھی ان کے ماتحت ہے۔
منگل کو بن گویر نے اسرائیلی پولیس کے گھیرے میں ٹیمپل ماؤنٹ یا مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا تھا۔ اس دن مذہبی یہودی ، چھٹی صدی قبل مسیح میں یروشلم پر بابیلوں کے قبضے کی یاد میں روزہ بھی رکھتے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطنیوں کے تنازع میں عالمی سطح پر مسجدِ اقصیٰ سے متعلق اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی حمایت پائی جاتی ہے۔ جب کہ فلسطینی ، اسرائیلی حکومتی اہلکاروں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے دورے کو اسٹیٹس کو کی خلاف ورزی سے تعبیر کرتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق الاقصی آزاد ریاست کے قیام کی فلسطینی امنگوں کی علامت ہے تاہم اسرائیل میں آنے والی حالیہ سیاسی تبدیلیوں سے یہ امیدیں ماند پڑ رہی ہیں۔
کشیدگی کے خدشات
منگل کو اسرائیلی وزیرِ کے دورےپر پیدا ہونے والے تنازع سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین کشیدگی میں اضافے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیلی وزیر کے دورے کے بعدحماس سمیت دیگر فلسطینی مسلح گروپس نے کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔
حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ بین گویر کا منگل کے روز اس مقام پر داخل ہونا "ہمارے مقدس مقامات پر صیہونیوں کی جارحیت اور ہمارے عرب تشخص کے خلاف جنگ کا تسلسل ہے۔"
ترجمان نے مزید کہا فلسطینی عوام اپنے مقدس مقامات اور مسجد اقصیٰ کا دفاع جاری رکھیں گے۔
بین گویر نے اپنے دورے کے بعد ٹوئٹر پر پوسٹ کیا کہ یہ مقام سب کے لیے کھلا ہے اور اگر حماس کا خیال ہےکہ یہ مجھے دھمکی دے کر روک سکتے ہیں (تو) انہیں سمجھنا چاہیے کہ وقت بدل گیا ہے۔"
بین گویر نے کہا"ٹیمپل ماؤنٹ اسرائیل کے لوگوں کے لیے سب سے اہم مقام ہے، ہم مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے نقل و حرکت کی آزادی کو برقرار رکھتے ہیں، لیکن یہودی بھی وہاں جائیں گے، اور جو لوگ دھمکیاں دیتے ہیں ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا،" ۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ منگل کو عسکریت پسندوں نے راکٹ فائر کرنے کی کوشش کی تاہم یہ راکٹ حماس کے زیرِ انتظام علاقے میں گرا تھا۔
اس تحریر کے لیے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے معلومات حاصل کی گئی ہیں۔