ایسے منصوبے، جائیداد یا اثاثے جن پر خرچ زیادہ اور آمدن صفر ہو اور انہیں بوجھ تصور کیا جاتا ہو وہ 'سفید ہاتھی' کہلاتے ہیں۔لیکن میانمار کے فوجی حکمران گزشتہ برس اپنے ملک میں پیدا ہونے والے سفید ہاتھی کو خوش بختی کی علامت بنا کر پیش کررہے ہیں۔
میمانمار میں اقتدار پر قبضے کے بعد فوجی قیادت مسلسل جمہوریت پسندوں کے مظاہروں کو کچل رہی ہے۔ فوج نے فروری 2021 میں میانمار کی منتخب لیڈر آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور اب ان کی مخالفانہ آواز کو دبانے کے لیے ان پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کررہی ہے۔
فوجی حکومت اپنے جمہوریت مخالف اقدامات کے باجود اپنا مثبت امیج بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی لیے فوج کے زیرِ اثر سرکاری میڈیا ملک کی مغربی ریاست راخین میں پیدا ہونے والے ایک سرمئی مائل سفید ہاتھی کو خوش بختی کی علامت بنا کر اس کا خوب چرچا کررہا ہے۔
قدیم دور میں البینو یا سفید ہاتھیوں کو خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اسے حکمرانوں کو تحفے میں دے دیا جاتا تھا۔ اس لیے یہ حکمرانوں کی نیک نامی کی علامت بن گیا۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس جب میانمار میں ایسے ہی ایک سفید ہاتھی کی پیدائش ہوئی تو اس کی روایتی علامتی حیثیت کو دیکھتے ہوئے ریاستی میڈیا نے اسے بھرپور کوریج دی۔
گزشتہ برس اکتوبر میں جب اس نایاب ہاتھی کی پیدائش ہوئی تو میانمار کے ڈکٹیٹر من آنگ ہیلنگ خود اس سے ملنے آئے اور ایک باقاعدہ تقریب میں اس ہاتھی کا نام 'رتھا ننداکا'رکھا۔
پالی زبان کے ان الفاظ کے معنی ملک اور خوشی ہیں یعنی ملک کی خوشی۔ ہاتھی کے نام رکھنے کی یہ تقریب ریاستی ٹی وی پر نشر کی گئی۔اس کے علاوہ برطانیہ سے میانمار کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے پر جاری ہونے والے خصوصی سنہری سکوں اور ڈاک ٹکٹ پر بھی اس ہاتھی کی تصویر ہوگی۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق میانمار کا مقامی میڈیا اس سفید ہاتھی کی خصوصیات کو بھی اجاگر کررہا ہے جس میں بتایا جارہا ہے کہ سرمئی مائل اس ہاتھی میں سفید ہاتھی کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس کی آنکھوں کا رنگ 'موتیوں' جیسا ہے اور اس کی کمر 'کیلے کی شاخ کی طرح خمیدہ' ہے۔
خوش بختی کی علامت؟
میانمار میں صدیوں سے علم نجوم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ بچوں کی پیدائش پر ان کا زائچہ تیار کرایا جاتا ہے اور روزمرہ زندگی اور سیاسی فیصلوں کے لیے بھی نجومیوں سے مشورہ کیا جاتا ہے۔
سفید ہاتھی سے جڑے تصورات بھی میانمار میں نئے نہیں ہیں بلکہ اس خطے کے دیگر ممالک میں بھی اس خوش بختی کی علامت سمجھنے کی روایت بہت قدیم ہے۔
ماضی کے برما اور حال کے میانمار کی طرح تھائی لینڈ اور لاؤس میں بھی قدیم حکمران سفید ہاتھی کو مقدس تصور کرتے تھے۔بلکہ مخالف کے پاس ہونے کی صورت میں اسے چھیننے کے لیے جنگیں تک ہوئی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سفید ہاتھیوں کو شاہانہ انداز میں رکھا جاتا تھا اور اس پر سواری بھی نہیں کی جاتی تھی۔ ان ہاتھیوں کی دیکھ بھال اور خوراک پر آنے والے اخراجات کی وجہ سے آج بھی وسائل پر بوجھ بننے والے کسی منصوبے، جائیداد یا اثاثے کو 'سفید ہاتھی' کہتے ہیں۔
'اے ایف پی 'کے مطابق انیسویں صدی میں برما کا دورہ کرنے والے ایک برطانوی اہلکار کے مطابق اس وقت کے برمی بادشاہ کے پاس ایک سفید ہاتھی تھا جس کی دیکھ بھال کے لیے 30 ملازمین رکھے گئے تھے۔ اس ہاتھی کو خاص طور پر ایک بہترین سرخ کپڑا پہنایا جاتا تھا جس پر قیمتی ہیرے جواہرات جڑے ہوتےتھے۔
اسی طرح ایک برمی حکمران نے جب اپنے بھائی کے تخت پر قبضہ کیا تو رعایا کو یہ دکھانے کے لیے کہ قدرت اس کے ساتھ ہے، اس نے فوری طور پر ایک سفید ہاتھی حاصل کیا۔
البتہ سفید ہاتھی کوئی علیحدہ قسم نہیں بلکہ انسانوں اور دیگر حیوانات کی طرح پیدائشی طور پر جسم میں میلینن نامی کیمیائی مادہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا رنگ بھورا یا سفیدی مائل ہوتا ہے۔
میلینن کیمیل جلد کے رنگ کا تعین کرتا ہے، اس کی کمی کو البینزم اور کمی کا شکار انسان یا جانور کو البینو کہا جاتا ہے۔
میانمار کے ماضی کے فوجی ڈکٹیٹر بھی سفید ہاتھیوں کو خوش بختی اور حکمرانی کے جواز کے طور پر سنبھال کر رکھتے تھے۔ ان ہاتھیوں کے لیے فوجی حکومت نے یانگون میں ایک باقاعدہ کمپاؤنڈ بھی بنوایا تھا جہاں کم ہی لوگوں کو جانے کی اجازت تھی۔
موجودہ فوجی حکومت کا منظورِ نظر 'رتھا ننداکا' بھی میانمار کی فوج کی جانب سے سفید ہاتھیوں کے لیے تیار کردہ خصوصی کمپاؤنڈ میں شاہانہ زندگی گزارے گا۔
اگرچہ میانمار کی فوجی جنتا اب بھی اس ہاتھی کو اپنے لیے 'نیک شگون' سمجھ رہی ہے لیکن ملکی حالات پر اس 'خوش بختی' کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا۔ میانمار میں فوجی حکومت کو سخت اقدامات کے باوجود اب بھی عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔
میانمار کے سماجی میڈیا پر بہت سے صارفین کہہ رہے ہیں کہ اول تو یہ ہاتھی سفید ہے ہی نہیں۔ اس کا رنگ سرمئی ہے اور حکومت اس کا رنگ سفید دکھانے کے لیے اس پر پردہ لگانا بھول گئی ہے۔ جب کہ ایک صارف کا تو کہنا ہے کہ ’سفید ہو یا کالا، رہے گا تو قیدی۔'
اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لیا گیا ہے۔