رسائی کے لنکس

کراچی، حیدرآباد بلدیاتی انتخابات: کس کا پلڑا بھاری ہے؟


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدر آباد میں سات سال سے زائد عرصے کے وقفےکے بعد 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔تاہم اس مرتبہ کس جماعت کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے؟ تجزیہ کار اس بارے میں ملی جلی رائے رکھتے ہیں۔

صوبے میں بلدیاتی اداروں نے اپنی چار سالہ مدت اگست 2020 میں مکمل کی تھی۔ اگرچہ قانون صوبائی حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے 120 روز میں انتخابات کرائے۔ لیکن کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ میں بلدیاتی اداروں کا انتظام 28 ماہ سے زیادہ عرصے سے کسی مقامی قیادت اور نمائندگی کے بغیر صوبائی حکومت کے تحت چلایا جا رہا ہے۔

کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں یہ بلدیاتی انتخابات سب سے پہلے 24 جولائی 2022 کو ہونا تھے، جنہیں بارشوں، سیلاب، سیکیورٹی کی عدم دستیابی اور دیگر وجوہات کے باعث تین مرتبہ ملتوی کیا گیا ۔ بعد ازاں عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے دونوں ڈویژن کے 16 اضلاع میں 15جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔

خیال رہے کہ سندھ کے دیگر چار ڈویژن میں گزشتہ برس مارچ میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کوشش ہے کہ بلدیاتی انتخابات کو اس وقت تک ملتوی کردیا جائے جب تک حلقہ بندیاں نئے سرے سے نہیں کی جاتیں۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ ماضی میں حلقہ بندیاں سیاسی بنیادوں اور غیر منصفانہ طور پر کی گئیں جس سے بعض یونین کمیٹیوں کی آبادی صرف 30 ہزار جب کہ بعض کی آبادی 90 ہزار سے بھی زیادہ رکھی گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد پیپلزپارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں فائدہ پہنچانا ہے۔

البتہ الیکشن کمیشن اور سندھ ہائی کورٹ اس دلیل کے تحت بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرچکے ہیں جس کے بعد یہ امید کی جا رہی ہے کہ اب انتخابات اپنی مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق کراچی میں 84 لاکھ 37 ہزار 520 رجسٹرڈ اہل ووٹرز ہیں جو 25 ٹاؤنز میں تقسیم ہونے والی کل 246 یونین کمیٹیوں میں اپنے چیئرمین، وائس چیئرمین اور وارڈ کونسلرز کا انتخاب کریں گے۔

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن(کے ایم سی) میں 246 براہ راست منتخب چیئرمینز کے علاوہ خواتین کے لیے81، ںوجوانوں، کسانوں اور اقلیتوں کے لیے 12، 12 نشستیں ہیں جب کہ خواجہ سراؤں اور معذور افراد کے لیے دو ، دو نشستیں مختص کی گئی ہیں۔مخصوص نشستیں براہ راست منتخب ہونے والے اراکین کی شرح سے جماعتوں میں تقسیم ہوں گی۔

اس طرح یہ ایوان 367 ارکان پر مشتمل ہوگا جو اس سے پہلے کی کونسل میں 308 پر مشتمل تھا۔ کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دونوں ڈویژن کی پانچ ہزار 143 نشستوں پر 24 ہزار سے زائد امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے 660 امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں۔

ان امیدواروں کا تعلق پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں سے ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے نتائج ماضی سے مختلف ہونے کی توقع

کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بار بلدیاتی انتخابات کے نتائج ماضی کے انتخابات سے مختلف ہوسکتے ہیں جس کی بنیادی وجہ متحدہ قومی موومنٹ ہے۔

صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ انتخابات میں مقابلہ بظاہر پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان نظر آتا ہےاور عین ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد ان میں سے کوئی دو سیاسی جماعتیں مل کر اتحاد کرلیں اور اپنا میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔

ان کے بقول ایم کیو ایم اور تحریک لبیک کے امیدوار بھی بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ متحدہ اور پیپلزپارٹی کو انتخابی تجربے پر کسی حد تک دوسری جماعتوں سے سبقت حاصل ہے۔

'ایم کیو ایم میئر کی دوڑ سے باہر دکھائی دیتی ہے'

سیاسی مبصر توصیف احمد کا خیال ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں 1988 سے ایم کیو ایم کی پہلی پوزیشن رہی ہے۔ مگر اب جو حالات تبدیل ہوئے ہیں، اس میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایم کیو ایم اپنے قیام سے اب تک پہلی بار کراچی کی میئر شپ کی دوڑ میں کافی پیچھے چلی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم نے انتخابات میں حصہ لیا تو ایک ملی جلی صورتِ حال سامنے آئے گی جس میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور ایم کیو ایم بھی نشستیں جیتے گی۔ لیکن اگر ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں کی بنیاد پر بائیکاٹ کا اعلان کیا تو اس کا زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا جب کہ کچھ فائدہ جماعت اسلامی کو بھی ہوگا۔

توصیف احمد کے خیال میں اردو بولنے والے ووٹرز نکلے تو وہ تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس لیے امکان یہ ہے کہ انتخابی نتائج ملے جلے نظر آئیں گے جس میں کسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی بھرپور کوشش ہے کہ اس بار کراچی سے ان کا میئر منتخب ہو اور اس کے لیے وہ جوڑ توڑ کر رہی ہے۔ ان کے بقول یہ واضح ہے کہ پیپلزپارٹی جوڑ توڑ کی سیاست کی ماہر ہے اور اس وقت اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔

'پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر دکھائی دیتی ہے'

صحافی عبدالجبار کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی طویل عرصے بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں کافی بہتر پوزیشن میں ہے۔ ان کے بقول پی پی کے رہنماؤں کے خیال میں وہ کراچی میں 25 میں سے 8 ٹاؤنز با آسانی جیتنے کی پوزیشن میں ہے جب کہ مزید چار پر اس کا مقابلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی دیگر جماعتوں ایم کیو ایم یا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرکے میئر کا اعلیٰ عہدہ اپنے نام کرنا چاہتی ہے۔

عبدالجبار کے خیال میں زمینی حقائق یہ ہیں کہ تحریک انصاف کہیں دور تک نظر نہیں آتی۔ لیکن تحریک انصاف کی مقامی قیادت کو توقع ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کا بیانیہ لوگوں کو پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کے لیے راغب کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ البتہ حیدرآباد کی میئرشپ کے لیے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب اور بارشوں کے بعد نتائج ماضی کے برعکس بھی آسکتے ہیں کیوں کہ ان اضلاع میں لوگوں کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی کے طرز حکمرانی سے مایوس بھی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG