امریکہ اور جاپان مشرقی بحیرہ چین اور تائیوان کے ارد گرد چینی فوجی خطرات کو روکنے کے لیے اقدامات کا خاکہ پیش کریں گے جس میں اوکی ناوا میں قائم امریکی میرین کور کے یونٹوں کو دوبارہ منظم کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بدھ کو واشنگٹن میں اپنے جاپانی ہم منصبوں وزیر خارجہ حیاشی یوشیماسا اور جاپانی وزیر دفاع حمدا یاسوکازو کے ساتھ ٹو پلس ٹو کے نام سے جانے والے اجلاس میں شرکت کی۔
امریکہ اور جاپان کے سفارتی اور دفاعی سربراہان کے درمیان ہونے والی بات چیت کے دو روز بعد امریکی صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا کی میزبانی کریں گے۔
واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ امریکہ اور جاپان ایک مشترکہ بیان جاری کریں گے جس میں چین کی جانب سے بڑھتے ہوئے سلامتی کے خطرات کے تناظر میں "جوابی اقدامات" کی وضاحت کی گئی ہو گی۔
ایک بریفنگ میں اہلکار نے رپورٹرز کو بتایا کہ سب سے بڑا چیلنج چین ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین نے گزشتہ 15 سے 20 سالوں کے دوران، نہ صرف جنوبی بحیرہ چین اور اپنے پڑوسی ممالک کے سرحدی علاقوں میں بلکہ مشرق میں بھی بحیرہ چین، سینکاکو کے ارد گرد اور تائیوان کے ارد گرد اپنے جارحانہ رویے کو بڑھایا ہے۔
اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "تائیوان کے آس پاس کے پانیوں اور مزید جنوب میں بحیرہ جنوبی چین تک تجارت کا آزادانہ بہاؤ جاپان اور دیگر ممالک کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے"۔
جاپان کے اخبار یومیوری شمبن کے مطابق، امریکہ 2026 تک جاپان کے اوکیناوا جزیروں میں اپنی میرین یونٹس کو منتشر کرنے کے اپنے منصوبے پر تبادلہ خیال کرے گا اور انہیں میزائلوں کے ساتھ ساتھ ہلکے گیئر سے مسلح کرے گا تاکہ چین کی فوج کو روکا جا سکے۔
واشنگٹن میں قائم "سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز" کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں امریکہ کو جاپان میں اپنے اڈوں کو جنگی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
تھنک ٹینک کی مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "جاپان میں امریکی اڈوں کے استعمال کے بغیر، امریکی لڑاکا اور حملہ آور طیارے مؤثر طریقے سے جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے۔"
امریکہ اورجاپان کے اسٹریٹجک اتحاد کی گہرائی جاپان کی نئی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے اجراء کے بعد ہوئی جس کے تحت وہ اگلے پانچ سالوں میں دفاعی اخراجات کو تقریباً دوگنا کر دے گا۔
جاپان پہلی بار ایسے میزائل تعینات کرے گا جو دوسرے ممالک میں فوجی اہداف کو نشانہ بنا سکیں۔