انڈو پیسیفک کے لیےوائٹ ہاؤس کے رابطہ کار کرٹ کیمبل نے جمعرات کو کہا ہے کہ چین امریکہ کے ساتھ اپنےقلیل مدتی تعلقات میں استحکام لانے کا خواہش مند ہے کیونکہ اسے اپنے ملک میں اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ ایشیا میں اپنی سفارت کاری کو مضبوط بنانا چاہتا ہے ۔
چین میں کووڈ۔19 سے بچاؤ کے لیے نافذ سخت ضابطوں پر عوام کی مایوسی اور صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا اظہار پچھلے مہینے ہونے والے بڑے عوامی مظاہروں کی شکل میں رونما ہوا، جسے صدر شی جن پنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے عوام کی بے اطمینانی کا اظہار قرار دیا جا رہا ہے۔
ان پابندیوں نے معیشت کی رفتار سست کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور عوامی مظاہروں کے نتیجے میں حکومت کو کووڈ پابندیوں میں نرمی لانے کا اعلان کرنا پڑا۔ تاہم اس سے یہ تشویش بھی پیدا ہو رہی ہے کہ نرمی سے وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی بھی آ سکتی ہے۔
کیمبل کا کہنا ہے کہ ان مسائل کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ چین نے اپنے بہت سے پڑوسی ملکوں کو ناراض کر رکھا ہے اور وہ اس وجہ سے بھی واشنگٹن کے ساتھ قلیل مدتی متوقع تعلقات میں بہتری کا خواہش مند ہے۔
کیمبل نے واشنگٹن میں ایسپن سیکیورٹی فورم کے ایک پروگرام میں جاپان اور بھارت کے ساتھ چین کے علاقائی تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بیجنگ نے بیک وقت کئی ملکوں کو چیلنج کر رکھا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ بہت سے معاملات میں نتیجہ برعکس نکلا ہے۔
کیمبل نے کہا کہ یہ سب (عوامل )مجھے یہ بتاتے ہیں چین کے لیے آخری چیز جس کی اسے ضرورت ہے، وہ ہے امریکہ کے ساتھ اعلانیہ دشمنی۔ وہ چاہتا ہے کہ ایک حد تک پیش گوئی اور استحکام کی صورت حال قائم رہے اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں۔
کیمبل نے کہا کہ اگلے کئی مہینوں میں، دنیا واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان زیادہ عملی اور قابل قیاس انتہائی طاقتور سفارت کاری کا دوبارہ آغاز دیکھے گی۔
انہوں نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ میرے خیال میں ہم کچھ ایسی پیش رفت دیکھنے جا رہے ہیں جو مجھے یقین ہے کہ پورے خطے کے لیے یقین دہانی کا باعث ہو گی ۔
کیمبل کا یہ تبصرہ گزشتہ ماہ شی جن پنگ اور صدر جو بائیڈن کی براہ راست ملاقات، اور واشنگٹن کےاس اعلان کے دو روز بعد سامنے آیا ہے جس کا تعلق چین کے بارے میں مشترکہ خدشات اور امریکہ کےاہم علاقائی اتحادی آسٹریلیا میں ’روٹیشنل‘ فوجی موجودگی میں اضافے کے منصوبوں سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی چیلنج سامنے آتا ہے تو اس کے حکمت عملی اور تجارتی دونوں لحاظ سے ہولناک نتائج ہوں گے، اور یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ہر ملک اس کی نزاکت کو سمجھتا ہے۔
جمعرات کو علیحدہ طور پر، انڈو پیسیفک کے لیے پینٹاگان کے اعلیٰ عہدے دار ایلی راٹنر نے کہا کہ 2023 ممکنہ طور پر ایک نسل کے دوران خطے میں امریکی فوج کی پوزیشن کے لیے سب سے زیادہ تبدیلی کا سال ہو گا۔
علاقائی اتحادیوں فلپائن اور آسٹریلیا کے ساتھ تعاون پر روشنی ڈالتے ہوئے،ایلی راٹنر نے امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کو بتایا، کہ ہم ایک اسٹریٹجک عزم کو پورا کرنے جا رہے ہیں جس کے لوگ طویل عرصے سے منتظر ہیں۔
آسٹریلیا کے لیےامریکی سفیر آرتھر سینوڈینوس نے ایسپن سیکیورٹی فورم کے ایک اور پینل کو بتایا کہ مستقبل میں جاپان بھی شمالی آسٹریلیا میں فوجی طاقت کی پوزیشن کے اقدامات میں اضافہ کرے گا۔
آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ نے گزشتہ سال ایک سیکیورٹی معاہدہ کیا تھا جسے AUKUS کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے ذریعے آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کو تعینات کرنے کے لیے ٹیکنالوجی فراہم ہو گی۔ اس معاہدے پر ان ملکوں کے وزرائے دفاع نے اس ہفتے واشنگٹن میں تبادلہ خیال کیا تھا۔