تہران کے صحافیوں کی ایسوسی ایشن نے بدھ کے روز بتایا ہےکہ کم از کم 30 ایرانی صحافی مہسا امینی کی ہلاکت کے نتیجے میں شروع ہونےوالے مظاہروں کے حوالے سے اب بھی قید ہیں۔
16 ستمبر کو ایک 22 سالہ کرد نژاد ایرانی خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد تقریباً چار مہینوں سے ایران میں مظاہرے جاری ہیں۔
مہسا کو ایرانی حکومت کے نافذ کردہ اخلاقی ضوابط کی نگرانی کرنے والی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران جا رہی تھی۔ اس پر لباس کے ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی کاالزام لگایا تھا۔ لباس کے ضابطے کے تحت خواتین کے لیے اپنا سر ڈھانپنا ضروری ہے۔
صحافیوں کی ایسوسی ایشن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ستمبر کے وسط کےبعد سے تقریباً 70 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے کچھ کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا جب کہ کم ازکم 30 صحافی پوچھ گچھ کے لیے اب بھی زیر حراست ہیں۔
صحافیوں کے اس گروپ نے ٹیلی گرام میسجنگ ایپ چینل پر جیل میں بند صحافیوں کی فہرست بھی شائع کی ہے۔
اس فہرست میں ایرانی صحافی نیلوفر حمیدی اور الٰہہ محمدی بھی شامل ہیں جن کی رپورٹنگ نے مہسا امینی کے کیس کو بے نقاب کرنے میں مدد کی تھی۔
تہران کے صحافیوں کی اس تنظیم نے تفصیلات بتائے بغیر یہ بھی کہا ہے کہ احتجاجی مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے عہدہ داروں کی جانب سے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی طلب کیا گیا ہے۔
اخبار’ ہم مہین‘ نے بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ تازہ ترین سزا کھیلوں کی رپوراٹنگ کرنے والے ایک صحافی احسان پیربرناش کو سنائی گئی۔ اس کے خلاف عائد الزامات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا لیکن یہ کہا گیا ہے کہ اسے 18 سال کی سزا سنائی گئی ہے جس میں سے 10 سال اسے جیل میں گزارنے ہوں گے۔
اکتوبر کے آخر میں، 300 سے زیادہ ایرانی صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹس نے اپنے دستخطوں سے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں حکام پر تنقید کرتے ہوئےکہا گیا تھا کہ عہدے داروں نے ان کے صحافی ساتھیوں کو گرفتار اور قید کر کے ان کے شہری حقوق چھین لیے ہیں۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ارکان سمیت سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ توڑ پھوڑ اور تشدد سمیت مختلف الزامات کے تحت ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایرانی حکمرانوں نے لوگوں کو خوف زدہ کر کے مظاہروں میں شرکت سے باز رکھنے کے لیے سخت سزاؤں کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں اب تک چار نوجوانوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ جب کہ زیر حراست درجنوں افراد کو ایسے الزامات کا سامنا ہے جس پر انہیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔)