ایران میں مہسا امینی کے پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد سے جاری مظاہروں کے سلسلے میں اب تک 14 ایرانیوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے، جن میں سے دو سزاؤں پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ درجنوں صحافیوں کو مظاہروں کی رپورٹںگ کرنے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ایران کو اپنے حق کے لیے بہادری سے آواز اٹھانے والےایرانی عوام کو تشدد سے دبانے اور کڑی سزاؤں کے ذریعے انہیں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت سے بار رکھنے کی کوشش پر دنیا بھر سے تنقید کا سامنا ہے۔
23 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کو پولیس نے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ تہران آ رہی تھی۔ پولیس نے اس پر ملک میں نافذ لباس کے ضابطے پر عمل نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے اپنے سر کو درست طریقے سے نہیں ڈھانپا ہے۔
مہسا 16 ستمبر کو پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھی جس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ ان مظاہروں کو عشروں قبل اسلامی انقلاب کے موقع پر ہونے والے مظاہروں کے بعد سب سے بڑے مظاہرے کہا جا رہا ہے جو حکومت کےسخت اقدامات کے باوجود ابھی تک جاری ہیں۔
ایران کی صورت حال پر نظر رکھنے والی تنظیموں کے مطابق ان مظاہروں میں اب تک 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، گرفتار ہونے والوں کی تعداد 19 ہزار سے زیادہ ہے جب کہ دو کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
اب ایران کی حکومت نے ایسے صحافیوں کو بھی گرفتار کرناشروع کر دیا ہے جو احتجاج سے متعلق کوریج کرتے ہیں۔
ایران ہیومین رائٹس نامی تنظیم نے ایک ٹوئٹ میں اخبار شرق کے رپورٹر میلاد علوی کو حراست میں لینے کی اطلاع کے ساتھ بتایا ہے کہ کم از کم 62 صحافی اس وقت جیل میں ہیں۔
روزنامہ اعتماد نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ اخبار کی سیاسی سروس کے سربراہ مہدی بیکو غلی کو کل رات گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بیکو غلی حراست میں لیے جانے والے اکیلے صحافی نہیں ہیں۔ ایرانی عہدے داروں نے ایک اور صحافی کو بھی گرفتار کیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے سزائے موت پانے والے افراد کے خاندانوں کے انٹرویوز کیے تھے۔
غیر ملکی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر ملکی تنظیموں اور مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ گرفتار کیے جانے والے درجنوں مظاہرین پر ایسے الزامات لگائے گئے ہیں جن پر انہیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
روزنامہ اعتماد نے اپنی اشاعت میں کہا ہے کہ مہدی بیکوغلی کی اہلیہ نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ گرفتاری کے دوران مہدی کا سیل فون، کمپیوٹر اور ذاتی سامان بھی ضبط کر لیا گیا ۔
ایک اور اخبار شرق نے دسمبر میں مظاہروں کے سلسلے میں گرفتار تقریباً 40 صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹوں کی فہرست شائع کی۔
اخبار شرق کی ایک خاتون صحافی نیلوفر حمیدی نے ایک دوسرے اخبار ہمہین کی رپورٹر الہہ محمدی کے ساتھ مل کر مہسا امینی کی اسپتال اور جنازے کی رپورٹنگ کی تھی۔ وہ دونوں ستمبر سے حراست میں ہیں۔
مقامی میڈیا نے اس کے بعد کئی اورصحافیوں کی گرفتاری کی اطلاع دی ہے۔
ایران کے اعلیٰ سیکیورٹی ادارے نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد سے اب تک سیکیورٹی فورس کے ارکان سمیت 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ عدالتی حکام کے مطابق 2000 سے زائد افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔)