رسائی کے لنکس

دنیا کے خاتمے کا وقت بتانے والی ’قیامت کی گھڑی‘ کس نے بنائی؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

موت اور اس دنیا کا خاتمہ انسانوں کے لیے سب سے بڑا معما ہے۔ یہ مذہب، فلسفے اور سائنس کے اہم ترین موضوعات میں بھی شامل ہے۔

کسی بڑی تباہی کے بعد دنیا کے خاتمے سے متعلق تصورات پر مبنی ادب کو ’اپوکلپس‘ کے عنوان سے الگ زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ اس موضوع پر بے شمار کہانیاں لکھی گئی ہیں اور ان میں سے کتنی ہی کہانیوں پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

کبھی کسی قدیم تہذِب کے آثار کی دریافت یا سال کے آغاز پر بحی دنیا کے خاتمے یا قیامت سے متعلق نشانیوں اور پیش گوئیوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ تاہم 75 برس قبل سائنس دانوں نے دنیا کے خاتمے کا وقت بتانے والی ’قیامت کی گھڑی‘ بنالی تھی جس میں ہرسال وقت کا تعین کردیا جاتا ہے کہ انسانوں کے پاس کتنی مہلت رہ گئی ہے۔

یہ گھڑی تیار کرنے والے سائنس دانوں نے 2023 میں’قیامت کی گھڑی‘ میں وقت کو متعین کرنے کا اعلان کردیا ہے اور یہ تبدیلی منگل کو کی جائے گی۔

لیکن یہ گھڑی کیا واقعی قیامت یا دنیا کے خاتمے کا وقت بتاتی ہے؟ اور کیا اس میں ’وقت‘ سے مراد وہی ہے جو ہم عام معنوں طور پرسمجھتے ہیں؟ اس کے جواب کے لیے اس ’قیامت کی گھڑی‘ کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔

’قیامت کی گھڑی‘ کیا ہے؟

’ڈومز ڈے کلاک‘ یا قیامت کی گھڑی بنیادی طور پر سائنس دانوں کا تیار کیا گیا ایسا ٹائم پیس ہے جس میں دنیا کے خاتمے کا وقت متعین کیا گیا ہے۔

یہ ایک علامتی گھڑی ہے۔ اس گھڑی میں خاتمے کے وقت کا تعین کرنے کے لیے دنیا کے اندر جاری سیاسی تنازعات، جنگوں، خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی اور ان سے پھیلنے والی ممکنہ تباہی، ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلیوں، وباؤں اور دیگر عوامل کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔

گھڑی میں مڈ نائٹ یا نصف شب کو خاتمے کا وقت قرار دیا گیا ہے اور اس کی سوئیاں ایک خاص مدت میں دنیا کو درپیش خطرات کے حساب سے12بجے یا نصف شب کے قریب یا دور کی جاتی رہتی ہیں۔

وقت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟

یہ گھڑی شکاگو میں قائم ہونےو الی ’بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس‘ نامی تنظیم نے تیار کی تھی اور یہ تنظیم اس گھڑی میں وقت کا تعین کرتی ہے۔ بلیٹن کی ویب سائٹ پر گھڑی کا ’وقت‘ بھی دکھایا جاتا ہے۔

اس گھڑی میں وقت کا تعین ایک بورڈ کرتا ہے جس میں 13 نوبیل انعام یافتہ سائنس دانوں سمیت نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور موسمیاتی سائنس کے ماہرین شامل ہیں۔

سائنس دانوں کا یہ بورڈ طے کرتا ہے کہ ہر سال اس گھڑی میں وقت کا تعین کس طرح کرنا ہے اور ان کے اندازے کے مطابق دنیا اپنے ’خاتمے‘ کے کتنے قریب ہے۔

یہ گھڑی 1947 میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے بنائی تھی جس میں البرٹ آئن سٹائن سمیت امریکہ کے مین ہٹن پراجیکٹ میں بھی شریک شکاگو کے ایٹمی سائنس دان شامل تھے۔

مین ہٹن پراجیکٹ نے دنیا کا پہلا ایٹم بم تیار کیا جسے امریکہ نے دوسری عالمی جنگ میں استعمال کیا تھا۔

قیامت کی گھڑی میں کیا وقت ہوا ہے؟

اس وقت قیامت کی گھڑی میں رات کے بارے بجنے یا نصف شب میں صرف 100 سیکنڈ باقی رہ گئے ہیں۔ یہ اب تک دنیا کے خاتمے کے لیے سب سے کم ترین مدت کا تعین ہے۔البتہ یہ وقت سن 2020 سے وہیں رکا ہوا ہے۔

رواں سال میں اس گھڑی کے وقت میں کیا تبدیلی ہو گی؟اس کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔

گھڑی کے وقت کی نگرانی کرنے والی تنظیم بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس کا کہنا ہے کہ وہ اس سال گھڑی میں وقت کا تعین کرتے ہوئے یوکرین پر روس کے حملے، ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ، موسمی تبدیلیوں سے شدت اختیار کرنے والے بحرانوں، ریاستی سرپرستی میں چلنے والی گمراہ کُن معلومات پھیلانے کی مہمات اور تباہ کُن ٹیکنالوجیز کے اثرات کو بھی مد نظر رکھیں گے۔

’مقصد خوف زدہ کرنا نہیں‘

جب ڈومز ڈے کلاک کا آغاز ہوا تھا تو دنیا کو نصف شب یا خاتمے سے صرف سات منٹ دور دکھایا گیا تھا۔

اس کے بعد 1956 میں جب امریکہ اور سوویت یونین نے ایٹمی تجربات کا آغاز کیا تو گھڑی میں نصف شب میں صرف دو منٹ رہ جانے کا وقت کردیا گیا۔

سن 1991 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد گھڑی میں دنیا کو خاتمے سے سب سے زیادہ دور دکھایا گیا تھا۔ اس وقت گھڑی میں نصف شب ہونے میں 17 منٹ کم کا وقت کردیا گیا تھا۔

بلیٹن کے مطابق اس گھڑی میں دنیا کے خاتمے کا وقت متعین کرنے کا مقصد لوگوں کو خوف زدہ کرنا نہیں ہے۔اسی لیے ہر سال وقت متعین کرتے ہوئے بلیٹن ان چیلنجز سے مقابلے کی تجاویز بھی جاری کرتا ہے جن کی وجہ سے دنیا تباہی کا شکار ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں اس گھڑی میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال اور ایٹمی جنگوں کے خدشات کے اندازوں پر وقت کا تعین کیا جاتا تھا۔ لیکن بدلتے حالات کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر خطرات کو بھی اس گھڑی میں وقت کے تعین کا پیمانہ تسلیم کیا گیا ہے۔

اس تحریر کے لیے خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی سے معلومات لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG