"میں ہمیشہ دوسروں کے احساسات اور نکتۂ نظر کو سمجھ لیتی ہوں۔ میں ان کا درد محسوس کرتی ہوں چاہے وہ طلاق کی وجہ سے ہونے والا صدمہ ہو یا گھر کا کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہونے والی پریشانی۔"
یہ کہنا ہے امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی لیوسا پیاٹی کا، جو ایک نانی بھی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ ان کے نزدیک خواتین بہتر طور پر دوسروں کا درد محسوس کرتی ہیں۔
پیاٹی یہ سمجھنے میں اس لیے بھی بجا ہیں کہ وہ خود ہمدردی اور دوسروں کا درد بانٹنے کی مثال ہیں۔ لیکن احساس سےبڑھ کر اس بات کے باقاعدہ سائنسی شواہد بھی سامنے آچکے ہیں کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ جذبۂ ہمدردی رکھتی ہیں۔
گزشتہ ماہ یونیورسٹی آف کیمبرج کی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں دنیا بھر کے ہزاروں افراد کی رائے شامل کی گئی تھی۔ دیگر جائزوں کی طرح، اس رپورٹ میں بھی یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں ایسے افراد کے احساسات کو بھی سمجھ جاتی ہیں جنہیں وہ جانتی نہ ہوں یا ان کے ثقافتی پس منظر ہی سے انجان کیوں نہ ہوں۔
اس تحقیق کی نگرانی کرنے والے ڈیوڈ گرین برگ کہتے ہیں کہ اس جائزے میں آنے والے شواہد سے اس خیال کی توثیق ہوئی ہے کہ اوسطاً خواتین میں جذبہؑ ہم دردی مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
شعوری ہمدردی
کسی کے آنسو دیکھ کر، اس کا درد یا تکلیف جان کر کسی کی بھی آنکھیں نم ہوسکتی ہیں اور ہم اسی کو عام طور پر نرم دلی یا دردمندی کی علامت بھی سمجھتے ہیں۔ البتہ سائنس دانوں کے نزدیک اصل جذبۂ ہمدردی وہ ہے جسے وہ 'شعوری ہمدردی' یا " کو گنیٹیو ایمپتھی" قرار دیتے ہیں۔
سائنس دانوں کے نزدیک شعوری ہمدردی وہ ہوتی ہے جس میں کوئی دوسروں کے احساسات یا سوچ کا ادراک کرکے اس کے ردِعمل کا اندازہ بھی لگا لے۔
مثال کے طور پر آپ کا کوئی دوست آپ کو یہ بتائے کہ وہ کسی ناخوش گوار بحث کی وجہ سے پریشان ہے۔ اگر آپ میں شعوری ہمدردی ہوگی تو آپ فوری طور پر سمجھ جائیں گے کہ آپ کا دوست آپ کو اپنی جگہ رکھ کر کیا محسوس کررہا ہے یا کرانا چاہتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کی یہ حالیہ رپورٹ اس موضوع پر ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس تحقیق میں مصر، بھارت، کروشیا اور سعودی عرب سمیت دنیا کے 57 ممالک کے تین لاکھ چھ ہزار مردوخواتین نے حصہ لیا تھا۔
ان ممالک میں سے 36 میں خواتین کی شعوری ہمدردی مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اور 21 ممالک میں برابر تھی۔ البتہ کسی ملک میں مردوں میں شعوری ہمدردی کا جذبہ خواتین سے زیادہ نہیں تھا۔
کمیبرج یونیورسٹی کی ڈائریکٹر آف ریسرچ اسٹریٹرجی کیری ایلیسن کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں مختلف ثقافتوں، لسانی پس منظر اور عمر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ اس تحقیق کے مرتبین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اوسط نتائج کی بنیاد پر رپورٹ مرتب کی ہے تاہم انفرادی طور پر بعض مرد بعض خواتین سے بہتر ہمدرد ہوسکتے ہیں۔
میری لینڈ سے تعلق رکھنے والی سانڈرا مرفی کہتی ہیں کہ وہ عورتوں کے نرم دل ہونے کے عمومی تاثر سے الگ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ان کے شوہر ان کے مقابلے میں زیادہ احساسِ ہمدردی رکھتے ہیں۔
ان کے شوہر جیک مرفی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے جذبات اور احساسات کے بارے میں زیادہ حساس ہیں۔
اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بلوغت یا نوجوانی کی عمر میں ہمدردی کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے اور عمر گزرنے کے ساتھ اس میں کمی آنے لگتی ہے۔
آنکھوں کی آزمائش
اس تحقیق کے شرکا کی شعوری ہمدردی کو ناپنے کے لیے محققین نے جس تکنیک کا استعمال کیا، اسے انہوں نے 'آئی ٹیسٹ' کا نام دیا ہے۔
اس ٹیسٹ کے لیے تحقیق کے شرکا کو مختلف لوگوں کے چہرے کے مختلف تاثرات والی تصاویر دکھائی گئیں۔ اس کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ ان تصاویر میں دکھائے گئے چہروں کے آنکھوں اور اس کے گرد حصے کو دیکھ کر ان کے جذبات کا اندازہ لگائیں۔ اس کیفیت کو بتانے کے لیے تحقیق کے شرکا کو محدود الفاظ میں اپنا اخذ کیا گیا نتیجہ بتانا تھا۔
یونیورسٹی آف اوریگون کے شعبۂ نفسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سارا ہوجز کا کہنا ہے کہ انسانی جذبات اور احساسات بہت پیچیدہ ہوتے ہیں جنہیں کسی کیمیکل ری ایکشن کے تجربے کے نتائج کی طرح ٹھیک ٹھیک نہیں ناپا جاسکتا۔
ان کے بقول خواتین عام طور پر غیر لفظی اور جذباتی ابلاغ یا کمیونی کیشن میں زیادہ بہتر ہوتی ہیں لیکن ہمدردی کے جذبے کی پیمائش کے لیے تجربات سے حاصل کردہ نتائج کے پیچھے سماجی اور حیاتیاتی محرکات بھی ہوسکتے ہیں اور آئی ٹیسٹ جیسے تجربات کی اپنی محدودات بھی ہیں۔
سارا ہوجز کا کہنا ہے کہ آئی ٹیسٹ میں دیکھا گیا کہ شرکا انہیں دکھائی گئی تصاویر میں تاثرات اور آنکھوں کو دیکھ کر جذبات سمجھنے میں کتنا کامیاب رہے۔ لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگ چہرے پڑھ لیتے ہیں لیکن وہ ایسا کسی جذبۂ ہمدردی کے لیے نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ اس صلاحیت کو اپنے مفادات کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
یہ تحریر وائس آف امریکہ کے لیے ڈورا میکوار کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔