’پیسے سے گھڑی خریدی جاسکتی ہے وقت نہیں!‘ یہ فقرہ کئی مصںفین سے منسوب ہے۔یہ بات ایک حقیقت ہے لیکن کچھ گھڑیاں بھی ایسی ہوتی ہیں جنہیں بہت کم لوگ ہی خرید سکتے ہیں۔
دنیا میں انتہائی بیش قیمت گھڑیوں کے کاروبار کا حجم اربوں ڈالر میں بتایا جاتا ہے۔ اس میں کئی برینڈز ہر سال لمیٹڈ ایڈیشنز بھی ریلیز کرتے ہیں۔
کاروباری خبروں کی ویب سائٹ ’انسائڈر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017 میں دنیا کی 32 گھڑیاں اور زیورات بنانے والی کمپنیوں ںے دو ارب ڈالر کا کاروبار کیا تھا۔
تاہم گھڑی ساز کمپنیوں کی متعارف کردہ نئی گھڑیوں کے ساتھ ساتھ بیش قیمت گھڑیوں کی دوبارہ فروخت یا ری سیل کا حجم نئی گھڑیوں کے کاروبار سے بھی بڑا ہے۔
گزشتہ برس خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پری اونڈ یعنی کمپنی کے بجائے کسی فرد کی زیرِ ملکیت گھڑیوں کی فروخت کا مجموعی حجم 16 ارب ڈالر ہے اور یہ ہر سال 25 فی صد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ البتہ گھڑیوں کے کاروبار سے متعلق آنے والی بعض دیگر کئی رپورٹس میں اس خرید و فروخت کا حجم اس بھی کئی گنا زیادہ بتایا جاتا ہے۔
مہنگی ترین گھڑیاں
بیش قیمت اشیا اور جائیداد کی خرید و فروخت کی خدمات فراہم کرنے والی ایک ویب سائٹ کے مطابق 2022 میں پیش کی جانے والی سب سے مہنگی گھڑی ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر کی ہے۔ اس گھڑی پر قیمتی ہیرے جڑے ہوئے ہیں اور اسے برطانیہ کی زیورات بنانے والی کمپنی گراف نے تیار کیا تھا۔ اس قیمتی گھڑی کا نام ’گراف ہیلوسینیشن‘ ہے۔
اس کے بعد گراف ہی کی تیار کی گئی ایک اور گھڑی ’فیسی نیشن‘ ہے جس کی قیمت چار کروڑ امریکی ڈالر ہے۔ تیسرے نمبر پر سوئس کمپنی پیٹک فلپ کی تیار کی گئی ’گرینڈ ماسٹر چین‘ ہے جس کی قیمت تین کروڑ 10 لاکھ ڈالر سے زائد ہے۔
چوتھے ںمبر پر جاپانی کمپنی ’کیرٹ‘ کی تیار کردہ ’چیپروڈ 201‘ ہے جو ڈھائی کروڑ ڈالرمالیت رکھتی ہے جب کہ پانچویں نمبر پر جیکب اینڈ کو کمپنی کی ’دی بلینیئر واچ‘ ہے جس کی قیمت ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہے۔
گھڑیاں اتنی قیمتی کیوں ہوتی ہیں؟
گھڑیوں کے معیار سے متعلق سب سے پہلے سوئٹزر لینڈ کا نام ذہن میں آتا ہے۔ سوئس کمپنیوں کی تیار کردہ گھڑیوں کو دنیا میں بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2019 میں سوئٹزر لینڈ نے 20 ارب سے زیادہ مالیت کی کلائی کی گھڑیاں درآمد کی تھیں۔
سوئٹز ر لینڈ میں ہر سال دو کروڑ گھڑیاں تیار کی جاتی ہیں جو پوری دنیا میں تیار ہونے والی گھڑیوں کا دو فی صد ہے تاہم بیش قیمت برینڈز کا مرکز ہونے کی وجہ سے ان تیار ہونے والی گھڑیوں کی مجموعی قیمت 50 ارب ڈالر سے زائد ہوتی ہے۔
کسی گھڑی میں جڑے ہوئے ہیرے یا قیمتی جواہر یا سونا ہی اسے قیمتی بناتے ہیں یا اس کے پیچھے کئی اور عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ اس بارے میں فیڈریشن آف سوئس واچ انڈسٹری کئی دیگر تفصیلات بھی بتاتی ہے۔
فیڈریشن کی ویب سائٹ کے مطابق کسی بھی گھڑی کی حرکت کو درست انداز میں جاری رکھنے کے لیے انتہائی باریک بینی سے اس کے پرزے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس میں انجینئرنگ کی بہت زیادہ مہارت درکار ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لیے مشین سے تیار کیے گئے پرزے بھی استعمال ہوتے ہیں تاہم کئی مرتبہ گھڑیوں کے مختلف ڈیزائن اور حجم کی وجہ سے بہت چھوٹے پرزے بھی ہاتھ سے تیار کرنا پڑتے ہیں جس پر بہت وقت صرف ہوتا ہے۔ اسی لیے بعض برینڈز کی کچھ گھڑیوں کے لمیٹڈ ایڈیشن ہی متعارف کراتے ہیں کیوں کہ ہنر مند کاریگروں اور انجینئرز کی محدود تعداد کی وجہ سے ایک خاص مدت میں اس سے زیادہ تعداد میں گھڑیوں کی تیاری بھی ممکن نہیں ہوتی۔
فیڈریشن کے مطابق گھڑی کی مشینری کے ساتھ ساتھ اس کے خول یا کیس کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد بھی اس کی قیمت میں شامل ہوتا ہے۔ اس لیے پلاسٹک یا اسٹیل وغیرہ کی کیسنگ میں آنے والی گھڑیوں کی قیمت بھی معمولی ہوتی ہے تاہم چاندی، سونے یا پلاٹینیم سے تیار کیے گئے کیسز والی گھڑیوں کی قیمت بھی ان دھاتوں کی قیمت کے مطابق ہوتی ہیں۔
سوئس واچ انڈسٹری فیڈریشن کے مطابق گھڑی کے ڈائل کی ڈیزائننگ اور اس کی حفاظت کے لیے اس پر لگائے گئے کرسٹل سے بھی قیمت کا تعین ہوتا ہے۔
طلب و رسد کا فرق اور سرمایہ کاری
گھڑیوں کی خرید و فروخت کی مشاورت فراہم کرنے والی ایک ویب سائٹ ’واچ کنسلٹنٹ‘ کے مطابق بعض گھڑیوں کی قیمت طلب و رسد کے بنیادی اصول کے مطابق بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی کسی خاص ڈیزائن کی گھڑی کی طلب زیادہ اور ان کی دستیاب تعداد کم ہو تو گھڑیاں خریدنے کا شوق رکھنے والوں کے درمیان جاری مسابقت مطلوبہ گھڑی کی قیمت کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
طلب و رسد کے اسی فرق کی وجہ سے گھڑیاں صرف شوق کے لیے ہی نہیں خریدی جاتی بلکہ یہ سرمایہ کاری کا بھی ایک ذریعہ ہیں۔ بہت سے ادارے اور افراد قیمتی گھڑیاں خرید کر جمع کرتے ہیں اور انہیں شوق رکھنے والوں میں منہ مانگی قیمتوں میں فروخت بھی کرتےہیں۔اسی لیے گھڑیوں کی خریداری کو مستقبل کی سرمایہ کاری یا کاروبار کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔
انسائڈر کی رپورٹ کے مطابق طلب و رسد کے فرق کی وجہ سے گھڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کا درست اندازہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران ہونے والے کاروبار سے لگایا جاسکتا ہے۔
وبا کے باعث کئی کمپنیاں بروقت اپنے نئی کولیکشنز متعارف نہیں کراسکیں جب کہ کئی نایاب یا کم یاب گھڑیوں کی نیلامی بھی رک گئی تھی۔ اسی وجہ سے دیگر نادر اشیا کی طرح وبا کے دوران گھڑیوں کی قیمتیں بھی اوپر گئیں۔ کیوں کہ گھڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کے پاس نئے آرڈر بروقت مکمل کرنے کی فرصت نہیں تھی اور طلب و رسد کی خلیج وبا کے دوران کاروبارِ زندگی بند ہونے کی وجہ سے کئی گنا بڑھ چکی تھی۔
تربیت اور لاگت
واچ کنسلٹنٹس کے مطابق بعض گھڑیوں کی تیاری میں انجینئرنگ سمیت کچھ ایسی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تربیت پر بھی بھاری لاگت آتی ہے۔ بعد میں یہی لاگت ان گھڑیوں کی قیمت میں شامل ہوتی ہے۔ یہ بھی بعض گھڑیوں کی زیادہ قیمتوں کی ایک وجہ ہے۔
اسی طرح گھڑی کی تیاری سے لے کر اس کی فروخت تک بیچ میں مارکیٹنگ، ڈسٹری بیوشن، اشتہارات جیسے دیگر اخراجات بھی اس کی قیمت میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ اور دیگر کئی عوامل مل کر گھڑیوں کو ایک بیش قیمت سرمایہ بناتے ہیں۔