نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا ہے کہ اُنہیں اطمینان ہے کہ وہ نیوزی لینڈ کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں چھوڑ کر جا رہی ہیں۔
منگل کو نیوزی لینڈ کے شمالی قصبے ریتانا میں آباد قدیم مقامی نسل ماووری کمیونٹی کے جشن میں شرکت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے آرڈرن کا کہنا تھا کہ وہ نیوزی لینڈ کی نئی قیادت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہیں۔
یہ بطور وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن کی آخری عوامی مصروفیت تھی جس میں وہ ماووری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے نامزد وزیرِ اعظم کرس ہپکنز اور دیگر قانون سازوں کے ہمراہ شریک ہوئیں۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آرڈرن کا کہنا تھا کہ وہ ہپکنز کو 20 برس سے جانتی ہیں اور اُنہیں یہی مشورہ دیں گی کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے اپنا تجربہ بروئے کار لائیں۔
جیسنڈاآرڈرن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ بطور وزیرِ اعظم سبکدوش ہو جائیں گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ تیسری مدت کے لیے یہ ذمے داری سنبھالنے کے لیے خود کو تیار محسوس نہیں کرتیں۔
آرڈرن کے اس اعلان کے بعد نیوزی لینڈ کی لیبر پارٹی نے اتوار کو متفقہ طور پر پارٹی رہنما کرس ہپکنز کو وزیرِ اعظم نامزد کیا تھا جو بدھ کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھائیں گے۔
نیوزی لینڈ میں رواں برس اکتوبر میں عام انتخابات ہونا ہیں اور انتخابات سے قبل وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونے کے ان کے اعلان پر حیرانی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ تاہم وہ بطور رُکنِ پارلیمان اپریل تک اپنی ذمے داریاں نبھاتی رہیں گی۔
آرڈرن کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ اُن کے اقتدار سے الگ ہونے پر منفی تبصرے کیے جائیں کیوں کہ بطور وزیرِ اعظم اُنہیں عوام کی جانب سے جو محبت اور ہمدردی ملی وہ اُن کے دورِ اقتدار میں غالب رہی۔
اس موقع پر نامزد وزیرِ اعظم کرس ہپکنز نے کہا کہ اقتدار کی منتقلی ایک کڑوی، میٹھی گولی کی طرح ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ یہ ذمے داری ملنے پر خوش ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ جیسنڈا اُن کی بہترین دوست ہیں۔
جیسنڈا آرڈرن کا کہنا تھا کہ وہ تنہا یہ بڑی ذمے داری سنبھالنے کے قابل نہیں تھیں، اُنہیں بہت سے بہترین دوستوں کا ساتھ میسر رہا اور وہ سمجھتی ہیں کہ وہ نیوزی لینڈ کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں چھوڑ کر جا رہی ہیں۔
جیسنڈا آرڈرن نے 2017 میں محض 37 برس کی عمر میں نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم منتخب ہو کر دنیا کی کم عمر ترین خاتون سربراہِ حکومت ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ آرڈن اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بدولت 2020 میں دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔
مارچ 2019 میں سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن کے بروقت فیصلوں اور متاثرہ مسلم کمیونٹی سے اظہارِ یکجہتی کے ان کے انداز نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی تھی جہاں انہیں خوب سراہا گیا۔
اس سانحے میں ایک شخص نے دو مساجد میں گھس کر 51 افراد کو اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب مساجد میں جمعے کی نماز کی تیاری کی جا رہی تھی۔
جیسنڈا پہلی خاتون وزیرِ اعظم تھیں جنہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی کمسن بچی کے ساتھ شرکت کی۔