آسٹریلیا نے اپنے وسطی خطے میں شراب نوشی سے جڑے تشدد اور جرائم کے واقعات پر قابو پانے کے لیے الکحل کی فروخت محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آسٹریلیا نے اس فیصلے کا اطلاق سڈنی سے دو ہزار کلومیٹر دور الائس اسپرنگز اور اس کے ملحقہ علاقوں میں کیا ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں مذکورہ علاقے میں اتوار، پیر اور منگل کے دن شراب کی فروخت پر پابندی ہوگی جب کہ ہفتے کے دیگر ایام میں بھی اس کی فروخت کو محدود کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق پورے آسٹریلیا میں کمیونٹی لیڈرز نے شراب نوشی کو پُرتشدد واقعات اور صحت سے متعلق بڑے مسائل کی وجہ قرار دیا ہے۔
منگل کو آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے الائس اسپرنگز کا دورہ کیا اور وہاں سیاست دانوں، پولیس اور کمیونٹی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ان کا کہنا تھا کہ شراب کی فروخت سے متعلق اقدامات کو وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
البانیز نے اس موقعے پر پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ شراب کی فروخت سے متعلق اقدامات کو مقامی اور غیر مقامی آسٹریلوی باشندوں کے درمیان پائے جانے والے اوسط عمر، صحت اور معاشی حالات اور جیل جانے کی شرح کے فرق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یکم فروری کو آنے والی ایک رپورٹ کے بعد ضرورت کے تحت مقامی سطح پر شراب کی فروخت پر پابندی اور اس کی فروخت محدود کرنے جیسے اقدامات کے قانونی پہلوؤں پر غور کیا جائے گا۔
آسٹریلیا رواں سال ایک تاریخی ریفرنڈم منعقد کرنے والا ہے جس میں آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کو آئینی طور پر تسلیم کرکے پارلیمنٹ میں ان سے متعلق امور کی فیصلہ سازی میں انہیں مستقل نمائندگی یا ’وائس‘ دینے کا فیصؒلہ کیا جائے گا۔ الائس اسپرنگز کی آبادی کا پانچواں حصہ آسٹریلیا کے مقامی باشندوں پر مشتمل ہے۔
وائس یعنی آواز کے نام سے بننے والی یہ نمائندہ باڈی مقامی باشندوں کے حقوق کا تحفظ کرے گی اور اس سلسلے میں حکومت اور پارلیمنٹ کو تجاویز بھی دے گی۔
ایک سال میں 2600 حملے
الائس اسپرنگز آسٹریلیا کے شمالی خطے میں واقع ایک دور دراز شہر ہے۔یہاں گزشتہ کئی برس سے بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے مقامی باشندوں کے کمیونٹی رہنما شراب کی فروخت کو محدود کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس علاقے میں جرائم کی شرح سے متعلق جاری کردہ حالیہ حکومتی اعدادوشمار میں گھریلو تشدد اور املاک پر حملوں کے واقعات میں نومبر 2022 تک 12 ماہ کے دوران 43 سے 60 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔
اس مدت میں 25 ہزار آبادی کے اس قصبے میں 2653 حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔
ناردرن ٹیریٹری پولیس کمشنر جیمی چاکر نے منگل کو مقامی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ برس جولائی میں الکحل پر عائد ہونے والی قانونی پابندیاں ختم ہونے کے بعد تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
شراب کی فروخت کو محدود کرنے سے متعلق قانون 2007 میں بنایا گیا تھا۔اس وقت کی حکومت نے اس علاقے میں جرائم، تشدد اور جنسی استحصال کو روکنے کے لیے یہ قانون بنایا تھا۔
کمشنر چاکر کا کہنا تھا کہ نظم و ضبط کے کئی مسائل ضرور ہیں لیکن شراب نوشی اور صحت عامہ پر اس کے وسیع اثرات کے درمیان تعلق کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔