پاکستان کے اسٹیٹ بینک کی جانب سے پیر کو شرح سود مزید ایک فی صد بڑھانے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد شرح سود 27 برس کی بلند ترین سطح پر جاتے ہوئے 17 فی صد پر جا پہنچی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کا دباؤ برقرار ہے جس پر قابو پانا اور مستقبل میں پائیدار نمو کو تقویت دینے کے لیے قیمتوں کا استحکام ضروری ہے۔ اسی لیے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کو غیر ملکی زرِ مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں میں شدید دقت کا بھی سامنا ہے جس کے لیے آئی ایم ایف سے نویں جائزہ مکمل ہونے کے بعد ایک ارب ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس عمل سے دیگر مالیاتی اداروں اور ممالک سے بھی امداد ملنے کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں عمومی مہنگائی 26.6 فی صد تھی جب کہ نومبر میں یہ معمولی سی کم ہو کر 23.8 فی صد اور دسمبر میں 24.5 فی صد تک چلی گئی یوں اکتوبر سے دسمبر کی سہ ماہی کے درمیان مہنگائی کی شرح 25 فی صد رہی البتہ کئی معاشی ماہرین کے خیال میں مہنگائی کی حقیقی شرح 30 فی صد یا اس سے زیادہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے پر تجزیہ کار شہریار بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کے لیے شرح سود میں دو فی صد تک اضافہ ناگزیر تھا البتہ شرح سود میں ایک فی صد اضافے کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے کیوں کہ کوئی بھی ایسا اقدام جو ملک کو آئی ایم ایف کے پروگرام کے قریب لے کر جائے گا اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب ایک اور ماہر معاشیات اور تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافہ کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا اثر صرف اس وقت ہوتا ہے جب مارکیٹ اپنے معمول کے مطابق کام کررہی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافہ کرنے کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک روپے کی قیمت مصنوعی طور پر منظم کرکے رکھی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شرح سود بڑھانے کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک اس میں درآمدات نہیں ہوں گی کیوں کہ درآمدات کو پہلے ہی مصنوعی طور پر محدود کیا جا رہا ہے۔
ان کے خیال میں شرح سود سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی کیوں کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اقدامات کا حصہ ہے۔
خرم شہزاد کے مطابق شرح سود بڑھانے سے نہ ہی شرح مبادلہ بہتر ہوگی اور نہ ہی مہنگائی میں کسی قسم کی کوئی کمی آسکتی ہے جب کہ دوسری جانب کاروباراور صنعتوں کو مزید مہنگے داموں قرض لوٹانا ہوگا اور اس فیصلے سے غیر دستاویزی مارکیٹ کو بھی مزید تقویت ملے گی۔ یہی نہیں بلکہ اس سے حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کو بڑھاوا ملے گا۔ یوں بیرونِ ملک سے بھیجے جانے والی ترسیلات زر میں مزید کمی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا واحد حل جو اب ناگزیر ہوچکا ہے اور یہ کئی ماہ پہلے ہوجانا تھا کہ وہ یہ ہے کہ پاکستان کی کرنسی کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کے بجائے اسے مارکیٹ کی سطح پر لایا جائے۔ اس سے شرح سود میں تبدیلیوں کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکتا ہے، ڈالر کا انٹر بینک ریٹ بڑھنے سے ملکی خزانے میں ڈالر کا بہاؤ بہتر ہوگا جب کہ اس عمل سے غیر رسمی منڈیوں پر قابو پانے سے مجموعی صورتِ حال بہت بہتر اور آسان ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق اس عمل سے قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں بھی نسبتا آسانی پیدا ہو سکتی ہے جس کے بعد دیگر مالیاتی اداروں اور ممالک سے بھی قرض حاصل کرنا آسان ہو جائے ہوگا۔
ادھر سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافہ آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا کیوں کہ اس وقت ملک کی معیشت کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف نے جو شرائط عائد کی ہیں، وہ اس سے بڑے اصلاحاتی فیصلوں کی متقاضی ہیں اور حکومت یہ فیصلے لینے کو فی الحال تیار نظر نہیں آتی۔
سلمان شاہ کے خیال میں اس فیصلے سے نہ ہی روپیہ مستحکم ہوگا اور نہ ہی مہنگائی پر قابو پانے میں کوئی خاص مدد ملے گی، جو اس وقت شرحِ سود سے تقریباََ دگنی ہے۔
دوسری جانب وفاقی کابینہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے عائد شرائط سے متعلق فیصلے ہو سکتے ہیں۔
حکومت کو ٹیکس کے اہداف پورا کرنے کے لیے نئے ٹیکسوں کا نفاذ، پیٹرولیم مصنوعات پر مزید ڈیوٹی عائد کرنے، بجلی کی قیمتوں میں سات فی صد سے زیادہ اضافے، گیس کی قیمتوں میں اضافے، روپے کی قدر کو مارکیٹ کو تعین کرنے دینے سمیت دیگر فیصلے کرنے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام دوبارہ سے شروع کرنے کی خواہش کا اظہار تو کیا ہے لیکن اس کے ساتھ اسے الیکشن کے سال میں ایسے سخت فیصلے بھی کر نے ہوں گے جس سے ملک میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھے گی۔