امریکہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور دہشتگردوں کے پیچھے جانے کے اس کے فیصلے کا بھی احترام کرنا چاہے گا۔یہ بات وائٹ ہاوس میں قومی سلامتی کے امورکے رابطہ کار جان کربی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔
وی او اے افغان سروس کے عزیز الرحمٰن کے ساتھ گفتگو میں جان کربی نے کہا کہ بلاشبہ پاکستان کو پاکستانی طالبان سے خطرات لاحق ہیں اور حالیہ دنوں میں ان کی جانب سے پاکستان کے اندر تشدد کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔
جب امریکہ کی قومی سلامتی کے کوارڈی نیٹر سے سوال کیا گیا کہ اگر پاکستان افغانستان کے اندر پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو آیا امریکہ ایسے کسی حملے میں پاکستان کی حمایت کر سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں جان کربی نے کہا:’’ سب سے پہلے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور خاص طور سے طالبان کی جانب سے، جنہیں آپ نے پاکستانی طالبان کہا، خطرے کا سامنا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے حالیہ دنوں میں اس کا مظاہرہ انتہائی خون خرابے کی شکل میں دیکھا ۔ لہٰذا، حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کو اس خطرے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے''۔
انہوں نع مزید کہا کہ ''اور ہم جانتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے بیچ وہ علاقہ اس طرح کے گروہوں کے لیے ابھی بھی کچھ محفوظ پناہ گاہ ہے ۔ ہم یقیناً یہ جاننے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ رابطے میں رہیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ، کیا ممکن ہوسکتا ہے ۔ لیکن آخر کار ، میرا مطلب ہے ہم پاکستان کی خود مختاری کا بھی احترام کرنا چاہیں گے اور ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان کے فیصلے کا بھی۔۔۔ ‘‘
واضح رہے کہ پاکستان کی قیادت کی جانب سے حالیہ دنوں میں ایسے بیانات سامنے آئے تھے جن میں ماہرین کے نزدیک ایک اشارہ دیا گیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر پاکستان خود افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے لیے جا سکتا ہے۔
جان کربی کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے ٹامس ویسٹ نے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے ٹامس نکلسن نے بھی پاکستان کا دورہ کیا ہے اورافغانستان سے متعلق امور پر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت سے الگ الگ بات چیت کی ہے، جس میں افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم، ان کے حقوق اور انتہائی ضرورت مند افراد تک امداد کی رسائی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی روک تھام کے معاملات شامل تھے۔
پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں طاقت ور بارودی خودکش دھماکے میں100 سے زیادہ افراد کی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے جن میں اکثریت پولیس اہل کاروں کی تھی۔
اس المناک دھماکے کے بعد پاکستان کے کئی وزرا اور عہدے داروں نے کابل پر انگلیاں اٹھاتے ہوئے طالبان سے مطالبہ کیا وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے کیے گئے اپنے وعدے پورے کریں۔
طالبان قیادت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کے الزام کی تردید کرتی ہے۔
تاہم کئی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے اندر کئی حلقے ٹی ٹی پی ،جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، نرم گوشہ رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے غیر ملکی طاقتوں سے طالبان کی جنگ کے دوران ان کی مدد کی تھی۔
طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پاکستان نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ ان پاکستانی طالبان کو دہشت گردی سے روکیں جنہوں نے افغانستان کے اندر پناہ لے رکھی ہے۔ طالبان نے اس کے جواب میں پاکستان سے کہا کہ وہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کریں جس میں وہ تعاون کریں گے۔
پاکستانی فوج اور دیگر عہدے داروں کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مذاکرات ان کی سخت شرائط کی بنا پر ناکام رہے، لیکن اس دوران مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے ان کے کئی جنگجوؤں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کر دیا اور کئی ایک امن سے رہنے کے وعدے پر افغانستان سے واپس آ کر اپنے گھروں میں آباد ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ مگر یہ امید پوری نہ ہو سکی اور ان کی واپسی کے ساتھ ہی صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھنا شروع ہو گئیں،جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
حال ہی میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغانستان سے آنے والے ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں جنہیں طالبان حکومت صرفِ نظر کر رہی ہے۔
پاکستانی وزیر کے اس بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے طالبان کے خارجہ امور کےوزیر امیر خان متقی نے بدھ کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اگر افغانستان دہشت گردی کا مرکز ہوتا تو پھر ان کے بقول یہ دہشت گردی تاجکستان ، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران تک پہنچ جاتی۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بات چیت کے چینلز موجود ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ بظاہر باہمی بد اعتمادی کی فضا موجودہے۔
ان کے بقول پاکستان میں پشاور میں ہونے والے مہلک خود کش حملے کے بعد پاکستان کی حکومت کو ملک کے اندر دباؤ کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے پاکستانی وزرا کے بیانات آئے ہیں۔