رسائی کے لنکس

پشاور دھماکہ: 'پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان بداعتمادی بڑھی ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پشاور دھماکے کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت اور پاکستان کے تعلقات میں تناؤ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ طالبان حکومت نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ الزام تراشیوں کے بجائے واقعے کی جامع تحقیقات کرے جب کہ پاکستانی دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔

طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان، طالبان حکومت پر اُنگلیاں نہیں اُٹھا رہا، بلکہ چاہتا ہے کہ طالبان حکومت عالمی برادری سے کیے گئے وعدے پورے کرے۔

ترجمان دفترِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت سے مخلصانہ تعاون کی توقع کرتا ہے۔

منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغانستان سے آنے والے ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں جن سے طالبان حکومت صرفِ نظر کر رہی ہے۔

پاکستانی وزیر کے اس بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے امیر خان متقی نے بدھ کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اگر افغانستان دہشت گردی کا مرکز ہو تا تو پھر ان کےبقول یہ دہشت گردی تاجکستان ، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران تک پہنچ جاتی۔

افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بات چیت کے چینلز موجود ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ بظاہر باہمی بد اعتماد ی کی فضا موجودہے۔

ان کے بقول پاکستان میں پشاور میں ہونے والے مہلک خود کش حملے کے بعد پاکستان کی حکومت کو ملک کے اندر دباؤ کا سامنا ہےاور اسی وجہ سے پاکستانی وزرا کے بیانات آئے کہ سرحد پار سے پاکستان مخالف شدت پسند وں گروپ پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔

پشاور میں پولیس کا احتجاج: 'ہم محفوظ نہیں تو عوام کیسے محفوظ ہوں گے؟'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:37 0:00


طاہر خان کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک افغانستان سے شکوے نہیں کرتے، تاہم پاکستان مخالف شدت پسندوں کی بڑی تعداد افغانستان میں مقیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی زیادہ ہوتی ہے۔

'پاکستان کو اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کرنا ہو گی'

شدت پسند ی اور عسکریت پسندی کے ماہر اور کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر نعیم احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے معاملے پر ایک واضح پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول نہیں کی لیکن اس کے باوجود اس حملے میں ان عناصر کے ملوث ہونے کا امکان ہے جن کا ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلق رہا ہے۔

نعیم احمد نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان پر تنقید کرنے کے بجائے اس بات کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ پشاور میں ہونے والا حملہ کیسے ہوا ہے اور سیکیورٹی لیپس کیوں ہوا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے اندر اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کرنا ہو گی کیوں کہ ان کے نظریات ایک جیسے ہیں۔

نعیم احمد کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سخت بیانات کےتبادلے کےباوجود دونون ممالک کے درمیان پس پردے رابطے موجو د ہوں گے۔

لیکن اُنہوں نے کہا جب پاکستان کی طرف سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہونےوالے مہلک حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے تو افغان طالبان فوراً اس کی تردید کر دیتے ہیں۔

یاد ر ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ لیکن گزشتہ سال افغان طالبان کی وساطت سے ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے بات چیت کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔

بعدازاں نومبر میں ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت ختم کرتے ہوئے ملک بھر میں عسکری کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG