پاکستان کی حکومت نے ملک کو درپیش مشکلات بالخصوص دہشت گردی و اقتصادی بحران پر مکالمے کے لیے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس کے لیے مقرر کی گئی تاریخ تبدیل کردی ہے۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھانے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اب منگل 7 فروری کی بجائے جمعرات 9 فروری کو ہوگی۔
ان کے مطابق اس کانفرنس میں دہشت گردی اور دیگر درپیش چیلنجز کے مقابلے کی مشترکہ حکمتِ عملی مرتب کی جائے گی اور نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی ہو گی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کو اب تک حکومت کی جانب سے اے پی سی میں شمولیت کا باضابطہ دعوت نامہ نہیں ملا ہے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں حکومتی نمائندوں نے فون پر اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ ان کے بقول یہ کانفرنس میں مدعو کرنے کا نامناسب طریقہ تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مطابق موجودہ حالات میں جبکہ حکومت پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کررہی ہے تو اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ جماعت کے لیے آسان نہیں ہے۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ملک کو یک جہتی کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو سب سے پہلے اپنا رویہ سدھارنا ہوگا۔
اے پی سی کی تاریخ میں یہ تبدیلی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے باضابطہ دعوت نہ ملنے کا بیان دیا ہے۔ قبل ازیں پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس کانفرنس میں شرکت ںہ کرنے کےبیانات بھی دیے تھے۔
اس صورتِ حال پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اے پی سی کے کنوینر اور وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے بتایا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں پرویز خٹک، اسد قیصر اور اعجاز شاہ کو ملاقات اور ٹیلی فونک رابطوں پر اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
ان کے بقول اس وقت ملک کو یک جہتی کی ضرورت ہے اور عمران خان اس کے لیے تیار نہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے گزشتہ پیر کو پشاور کی پولیس لائن مسجد میں خود کُش دھماکے کے بعد دہشت گردی اور معیشت کو درپیش قومی مسائل پر مکالمے کے لیے سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بلائی تھی۔
کیا عمران خان شرکت کریں گے؟
مبصرین کا کہناہے کہ کانفرنس کی طے شدہ تاریخ میں تبدیلی پی ٹی آئی کے تازہ بیان کے بعد کی گئی ہے جس میں انہوں نے باضابطہ دعوت دینے پر شرکت کا عندیہ دیا ہے۔
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر عمران خان اے پی سی میں شرکت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بات چیت اور اتفاق رائے کا راستہ نکلے گا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ سیاسی اکٹھ دہشت گردی کے حوالے سے ہےلیکن اس میں مستقبل کے سیاسی و اقتصادی فیصلوں پر بھی مشاورت اور اتفاق رائے ہوسکے گا۔ اس لیے ان کے بقول عمران خان کو گفت و شنید کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس اے پی سی میں شرکت کرنی چاہیے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حکوت کو بھی چاہیے کہ باضابطہ دعوت کے لیے مرکزی وفد بجھوائے تاکہ تحریکِ انصاف کو اس کانفرنس میں شرکت کے سیاسی نتائج سے متعلق کوئی امید نظر آئے۔
تجزیہ نگار سجاد میر کی رائے ہے کہ حکومت مفاہمت کا ماحول بنانا چاہتی ہے لیکن حزب اختلاف کی بڑی جماعت پی ٹی آئی اس کے لیے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان کے ماضی کے رویے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اتفاق رائے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی عدم شرکت پر حکومت کو عمران خان کے خلاف تنقید کا ایک جواز مل جائے گا۔ اگرچہ کانفرنس میں دہشت گردی کے معاملے پر اتفاقِ رائے بھی ہوجائے گا لیکن عمران خان کی عدم شرکت کے باعث سیاسی ماحول انتشار کا شکار رہےگا۔
اس سے قبل سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پارٹی کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے وائس آف امریکہ کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت ملنے کی تصدیق کی تھی۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قومی یک جہتی کے لیے تمام رنجشیں بھلانے کو تیار ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو سنجیدگی دکھانا ہوگی۔
اے پی سی نتیجہ خیز ہوسکتی ہے؟
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بدقسمتی ہے کہ اہم قومی معاملات پر اتفاق رائے کے لیے بھی کسی بڑے سانحہ کا انتطار کرتے ہیں جب کہ زندہ قومیں وقت پر فیصلے کرتی ہیں اور ہمیں کسی حادثے کے بعد اس کا احساس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اگر آل پارٹیز کانفرنس کا بائیکاٹ کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کانفرنس کے نتیجے میں دہشت گردی پر تو اتفاق رائے پیدا ہوجائے گا لیکن اگر عمران خان شرکت نہیں کرتے تو انتخابات اور انتخابی اصلاحات جیسے نکات پر افہام و تفہیم کا راستہ نہیں نکلے گا۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کے بعد عمران خان کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اور اسی لیے انہوں نے پنجاب و خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کردی ہیں۔
تجزیہ نگار سجاد میر کہتے ہیں کہ عمران خان کا خیال تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد حکومت کے پاس عام انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا لیکن اگر موجودہ صورتِ حال طول پکڑتی ہے تو حالات الیکشن کےبجائے کسی اور طرف جا رہے ہیں۔
ان کے بقول اسٹیبلشمںٹ کے حلقوں میں بھی یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ موجودہ حالات انتخابات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔