صدر بائیڈن آج منگل کی رات اپنا دوسرا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کسی حد تک مایوس کن رپورٹ کارڈ کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے رائے عامہ کے ایک جائزےسے ظاہر ہوا ہے کہ 62 فیصد امریکیوں کے مطابق وہ اپنے عہدے کے دو برسوں میں بہت زیادہ کامیاب نہیں رہے یا بہت کم کامیاب رہے یا بالکل کامیاب نہیں رہے ۔
وائٹ ہاوس کی پریس سیکرٹری جین پئیر نے کہا ہے کہ منگل کی رات ان کے لئے کانگریس کے مشترکہ سیشن کے سامنے پیش ہونے اور لوگوں کو اس کے برعکس یقین دلانے کا موقع ہے ۔ پیر کی سہ پہر تک صدر اپنے قریبی مشیروں کے ساتھ اپنی تقریر پر مشورے کر رہے تھے اور مسودے پر نظر ثانی کر رہے تھے ۔
پریس سیکرٹری کا کہنا تھا کہ بائیڈن کے پاس صرف کانگریس سے ہی نہیں بلکہ امریکیوں سے بھی اس بارے میں براہ راست بات کرنے کا موقع ہو گا کہ انہوں نے گزشتہ دو برسوں میں کیا کچھ کیا اور وہ اس ملک کےمستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں۔
سیاسی ماہر اینڈریو سیلگ سوہن جو غیر جماعتی ریسرچ آرگنائزیشن پبلک ایجنڈا کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ بائیڈن کو بیشتر امریکیوں کو درپیش سب سے اہم موضوع یعنی معیشت پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ وہ ممکنہ طور پر خارجہ پالیسی ، صحت عامہ ، پولیس اصلاحات ، گن کنٹرول اور امیگریشن سمیت دوسرے اہم موضوعات پر بھی بات کر یں گے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں بائیڈن کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ عالمی معاملات کا ذکر کرتے ہوئے خود کو ایک ایسے لیڈر کےطور پر بھی پیش کریں گے کہ وہ روز مرہ کے معاشی چیلنجوں کو سمجھتے ہیں اور ان سے نمٹے کے لیے تیار ہیں جو امریکیوں کو یہاں اپنے وطن میں درپیش ہیں ۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں گورننس کے ایک تجزیہ کار ولیم گالسٹن کہتے ہیں کہ بائیڈن کی تقریر میں پالیسی کے علاوہ اور بھی موضوعات ہوں گے ۔
ان کا کہنا ہے کہ اب جب صدر کانگریس کے مشترکہ سیشن کے سامنے کھڑے ہوں گے تو انہیں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہوگی کہ گویا وہ وائٹ ہاوس میں ایک اور مدت کے لئے رہنا چاہتے ہیں ۔
بائیڈن بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ 2024 میں انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ابھی تک صدر نے اپنی امیدواری کا باقاعدہ طور پر اعلان نہیں کیا ہے ۔
ڈیموکریٹس کی اکثریت کا خیال ہے کہ صدر جو بائیڈن کے لیےصدارت کی ایک مدت کافی ہے۔ تاہم صدر کا اصرار ہے کہ وہ 2024 میں دوبارہ انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آر سی سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کے ایک نئے سروے کے مطابق صرف 37 فیصد ڈیموکریٹس صدر بائیڈن کے دوسری مدت کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کے خواہاں ہیں ۔
یہ شرح سال کے وسط مدتی انتخابات سے پہلے والے ہفتوں میں 52 فیصد تھی ۔ اگرچہ بائیڈن قانون سازی کی اپنی کامیابیوں اور حکومت کرنے کی صلاحیت کو سراہتے رہتےہیں تاہم حالیہ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ بالغ امریکیوں کی نسبتاً کم تعداد اس سے متفق ہے ۔
جائزے کے جواب دہندگان کے ساتھ فالو اپ انٹرویوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ متعدد لوگوں کے خیال میں 80 سال کی عمر میں اتنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا آسان کام نہیں ہے ۔
امریکی تاریخ کے سب سے معمر صدر بائیڈن کو اپنی عمر کے بارے میں اکثر سوالات کا سامنا رہتاہے کیونکہ اگر وہ پورے آٹھ سال صدر کے طور پر کام کرتے ہیں تو ان کی عمر 86 برس ہو جائیگی ۔ وہ اکثر زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں۔ گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں اور سفر کے دوران ملنے والے اجنبیوں کے نام یاد رکھتے ہیں جو ان کے ساتھ اپنی زندگی کے تجربات شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
وہ نصف صدی سے قومی سیاسی شخصیت رہے ہیں ۔ وہ پہلی بار 1972 میں ڈیلاویئر سے سینیٹر کے طور پر منتخب ہوئے تھے، بطور صدر جب وہ اسٹیج پر کبھی کبھار کھوئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یا تقریروں کے دوران اٹکتے ہیں تو ایسی چیزیں ان کی پالیسیوں سے زیادہ توجہ کا محور بن جاتی ہیں۔
گالسٹن کہتے ہیں کہ اگر آپ رائے عامہ کے جائزوں کو دیکھیں تو ڈیمو کریٹس، ری پبلکنز اور غیر جانبداروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ وہ اس منصب کی ذمّہ داریاں سنبھالنے کے لئے بہت عمر رسیدہ ہیں ۔ اور آج ان کے لئے درحقیت ایک سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ وہ اپنی تقریر کے ذریعے لازمی طور پر اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ۔
اگر وہ یہ تاثر نہ دے سکے تو ان کے دوبارہ انتخاب کی راہ میں یہ ایک رکاوٹ بن سکتی ہے ۔ اس لیے اس خطاب میں تخاطب کا انداز بہت اہمیت رکھتا ہے ۔
صدر کا خطاب واشنگٹن میں امریکی ایسٹرن ٹائم کے مطابق رات نو بجے ہوگا۔
وی او اے نیوز