رسائی کے لنکس

دہشت گرد کراچی پولیس ہیڈ آفس میں داخلے میں آخر کیسے کامیاب ہوئے؟


کراچی کے پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز کے اہل کار عمارت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ 17 فروری 2023
کراچی کے پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز کے اہل کار عمارت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ 17 فروری 2023

سندھ کے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ نے کراچی پولیس ہیڈ کوارٹر پر جمعے کی شام ہونے والے دہشت گرد حملے کے سہولت کاروں کا پیچھا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اس حملے میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ تینوں حملہ آور بھی کارروائی میں مارے گئے تھے۔

پیر کو سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی ادارے امن و امان کی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کے پولیس چیف کے دفتر پر حملے کے حوالے سے وزیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی پولیس آفس میں سیکیورٹی انتظامات بہتر ہونے چاہیے تھے۔ اول تو دہشت گردوں کو یہاں تک پہنچنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ پھر وہ ان کو اندر داخل ہونے سےروکنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیکیورٹی کو مزید بہتر کرنے کے لیے دیکھنا ہوگا۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ۔ فائل فوٹو
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ۔ فائل فوٹو

ایوان میں خطاب کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ دہشت گردوں کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کیا جائے جب کہ ہمارا مقصد تھا کہ کم سے کم نقصان سے یہ صورت حال کنٹرول کی جاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس ہیڈ کوارٹر کی اندر کی سی سی ٹی وی فوٹیجز ہیں جن کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

ادھر پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گرد کرولا کار میں پولیس لائن فیملی کوارٹر کی جانب سے داخل ہوئے تھے جب کہ ان کے سہولت کار بھی دو موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر پہنچے۔ موٹر سائیکل سوار سہولت کاروں نے کار سے اترنے والے دہشت گردوں کو ہدف کے بارے میں بتایا اور پھر فرار ہوگئے۔

جس کے بعد عقبی راستے سے کراچی پولیس آفس کی دیوار پر لگی خاردار تار کو کاٹ کر ایک دوسرے کی مدد سے تینوں ملزمان اندر داخل ہوئے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ عقبی دیوار پر بنائی گئی دونوں چیک پوسٹس خالی تھیں جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو عمارت میں گھسنے کے دوران کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا ہی نہیں ہوا۔

ادھر ڈی آئی جی کراچی ساؤتھ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا اصل ٹارگٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی تھے۔ اور دہشت گردوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کا دفتر کس منزل پر واقع ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد حملے سے قبل عمارت کی مکمل ریکی بھی کرچکے تھے اور انہیں معلومات تھیں کہ کس وقت سیکیورٹی بڑھتی ہے اور کب یہاں سیکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کی تعداد کم ہوتی ہے۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ہلاک دو دہشت گردوں کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ ایک کا نام کفایت اللہ اور دوسرے کی شناخت ذالا نور کے نام سے ہوئی ہے۔ کفایت کا تعلق لکی مروت سے بتایا جاتا ہے جب کہ ذالا نور کا تعلق شمالی وزیر ستان سے تھا۔ دونوں دہشت گردوں کا مزید ریکارڈ بھی تلاش کیا جارہا ہے۔

پولیس نے مقدمہ درج کر کے جمعے کو ہونے والے حملے کی باقاعدہ تفتیش تو شروع کر دی ہے لیکن دو روز میں اب تک اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ جب کہ تحقیقات کو مانیٹر کرنے کے لیے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔

دوسری جانب سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز ہونے والا حملہ سیکیورٹی سے زیادہ انٹیلی جنس کی ناکامی کے زمرے میں آتا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کے پولیس ہیڈ کوراٹر پر دہشت گردوں کا ایسا بے خوف حملہ اور کئی گھنٹے تک وہاں موجودگی سے انہوں نے پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی جگہ کو باآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔

سیکیورٹی امور کے ماہر اور سیٹیزن پولیس لیژن کمیٹی کے سابق سربراہ جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا ایڈیشنل آئی جی کے دفتر تک پہنچنے میں کامیاب ہونا سیکیورٹی انتظامات پر سوالیہ نشان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی پولیس چیف اگر دفتر میں ہوتے تو ان کی موجودگی کی وجہ سے دیگر اسٹاف کا ہونا لازم تھا لیکن ان کی چھٹی کی وجہ سے اسٹاف بھی کم رہا اور خوش قسمتی سے دہشت گردوں کی لمبے وقت تک یرغمال بنانے کی حکمت عملی بھی کامیاب نہ ہوسکی حالانکہ عمارت میں30 سے 40 افراد موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے سیکیورٹی لیپسز کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ گرنیڈ پھینکتے یہ دہشت گرد کیسے اندر تک گھسنے میں کامیاب رہے۔ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ شہر کے بیچوں بیچ اتنے سارے اسلحے اور بارود کے ساتھ یہ کیسے باآسانی ہدف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

کراچی پولیس آفس کو دیشت گردوں سے چھڑانے کے بعد میڈیا کے ارکان صدر دروازے پر موجود ہیں۔ 17 فروری 2023
کراچی پولیس آفس کو دیشت گردوں سے چھڑانے کے بعد میڈیا کے ارکان صدر دروازے پر موجود ہیں۔ 17 فروری 2023

دوسری جانب پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں پیر کے روز کاروبار کے اختتام پر 445 پوائنٹس کی بڑی کمی دیکھی گئی جس کی وجہ جہاں ملک کی خراب معاشی حالت میں آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی نئی قسط ملنے سے متعلق غیر یقینی کو قرار دیا جارہا ہے وہیں معاشی تجزیہ کار امن و امان کی خراب صورت حال کو بھی اس کی ایک وجہ قرار دیتے نظر آتے ہیں۔

کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر طارق یوسف نے کہا ہے کہ کراچی پولیس آفس جیسے ہائی پروفائل جگہ پر حملہ سے طویل مدت میں کاروبار اور مستقبل کی سرمایہ کاری کو شدید متاثر کرتے ہیں اور ایسے وقت میں شہر اور ملک کے بارے میں منفی تاثر کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ جب قومی معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG