پاکستان کے شہر کراچی کے پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے میں تین حملہ آوروں سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران دو پولیس اہلکار، ایک رینجرز اہلکار اور ایک عام شہری جان کی بازی ہار گئے۔
پولیس حکام کے مطابق دہشت گرد جمعے کی شام سوا سات بجے پولیس آفس کی پارکنگ پر دستی بم پھینک کر اندر داخل ہوئے، اس دوران پولیس اہلکاروں نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی جس پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی کراچی کے دیگر علاقوں سے بھی پولیس، پاکستانی فوج کے کمانڈوز اور رینجرز اہلکاروں کو طلب کر لیا گیا، فائرنگ کا یہ تبادلہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا۔
بعدازاں ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور پولیس آفس کا کنٹرول سیکورٹی فورسز نےسنبھال لیا ہے۔ پولیس کمانڈوز اور بم ڈسپوزل اسکواڈ نے عمارت کو کلیئر کردیا جس کے بعد وزیراعلی سندھ اور دیگر حکام نے پولیس ہیڈ آفس کا دورہ کیا ہے۔
کراچی سے وائس آف امریکہ کے محمد ثاقب نے بتایا ہے کہ پولیس ہیڈآفس پر دہشت گردوں کے حملے میں مجموعی طور پر تین دہشت گرد ہلاک ہوئے جن میں سے ایک دہشت گرد نے خود کو آفس کی چھت پر اڑا دیا۔
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ حملہ آوروں نے خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں اور ان میں سے ایک نے پولیس کی عمارت کے اندر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔پولیس آفس کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے: پولیس
کلیئرنس آپریشن میں حصہ لینے والوں میں فوج کے ایس ایس جی کی دو ٹیمیں، سندھ رینجرز کے جوان بھی شریک تھے۔
دہشت گردوں کے خلاف کمانڈوز کا آپریشن کے دوران ایک اور زور دار دھماکا ہوا جس سے عمارت کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
سہولت کاروں کو انجام تک پہنچایا جائے گا: کراچی پولیس چیف
کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے کہا ہے کہ دہشت گردی کی اطلاعات ضرور تھیں مگر کسی مخصوص خطرے کی نشاندہی نہیں تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ جو واقعے کے سہولت کار ہیں یا براہ راست ملوث ہیں ان سب کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔
حملہ آور پولیس کی وردی اور دو گاڑیوں میں آئے تھے
پولیس حکام کے مطابق حملہ آور دو گاڑیوں میں پولیس کی وردی میں کراچی پولیس آفس پہنچے تھے۔ دونوں گاڑیوں کو بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے نے چیک کیا۔ ایک گاڑی عمارت کے عقب، دوسری سامنے کھڑی ہوئی ملی۔
صدر پولیس لائن کے احاطے میں کھڑی کار کے چاروں دروازے کھلے ہوئے ملے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے مقابلے بھی جاری ہیں اور کراچی میں بھی میچز ہو رہے ہیں۔ تاہم وزیرِ اعلٰی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل کے لیے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں، اس سے ان مقابلوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کراچی کے پولیس ہیڈ کوارٹر پر یہ حملہ پشاور کی ایک مسجد میں خودکش دھماکے کے دو ہفتے کے بعد ہوا ہے جس میں پولیس اہلکار کے بھیس میں ایک خودکش بمبار نے خود کو اُڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں 101 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
کراچی پولیس آفس شہر کی مصروف ترین شاہراہ فیصل سے متصل ہے۔ جب کہ کے پی او سے متصل صدر تھانہ اور ویمن پولیس اسٹیشن موجود ہے, اس آفس کے قریب تجارتی عمارتیں اورمسیحی قبرستان بھی ہے۔
امریکہ کی مذمت
امریکہ نے بھی کراچی حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کراچی حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے پاکستان میں نقل و حرکت کے دوران محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔
امریکی سفارت خانے کی جانب سے شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں جانے سے گریز کریں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا نوٹس، صدرِ پاکستان کی مذمت
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کراچی پولیس آفس پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی سندھ سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
شہباز شریف نے دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی پر کراچی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شاباش دی ہے۔
صدر مملکت عارف علوی نے ایک بیان میں کراچی میں حملے کی مذمت کی ہے۔