رسائی کے لنکس

پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض ملنے میں تاخیر؛ کیا اس کی وجہ امریکہ چین کشیدگی بھی ہے؟


پاکستان میں جہاں ایک طرف معاشی بحران ہے وہیں ملک میں مہنگائی بھی عروج پر ہے۔ ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہونے کے باعث غیرملکی قرضوں کی ادائیگیوں اور جاری کھاتوں میں درپیش خساروں کو پورا کرنے کے لیے بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اسی اثنا میں پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے سخت شرائط پر قرض پروگرام کی ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی نئی قسط کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔

لیکن ایک ماہ کی کاوشوں اور وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کے دعوؤں کے باوجود آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان قرض کے حصول کے لیے اسٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) نہیں ہو سکا ہے۔

تجزیہ کار ستمبر سے آئی ایم ایف پروگرام میں ہونے والے تعطل کا ذمے دار حکومتِ پاکستان اور فنڈ کی جانب سے سخت شرائط کو سمجھتے ہیں۔

بعض سیاسی اور معاشی ماہرین کا خیال ہے اس کی ایک وجہ چین اور امریکہ کے درمیان حالیہ عرصے میں بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں جن میں تجارتی جنگ اور روس کی یوکرین میں جنگ کے بعد مزید شدت آئی ہے۔

'پاکستان سمیت کئی ممالک کو آئی ایم ایف سے قرض کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا ہے'

معاشی تجزیہ کار اور پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا ہے کہ سری لنکا کو ڈیفالٹ ہوئے چھ ماہ گزرچکے ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہونے کے باوجود اس کی منظوری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے نہیں مل پائی ہے جس کی وجہ سے اب تک قرض کا اجرا نہیں ہو سکا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح افریقی ملک زیمبیا کو نو ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور گھانا کو بھی تین ماہ ہونے کو ہیں۔ لیکن اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد بورڈ کی منظوری نہیں ہو پائی ہے۔

ان کے بقول آئی ایم ایف میں زیادہ اثر مغربی ممالک کا ہے جب کہ دوسری جانب چین نے بہت سے ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان کو اربوں ڈالرز کے قرضے دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا تقریباً 17 سے 20 فی صد بیرونی قرض چین سے حاصل شدہ ہے جو کہ ایک بہت بڑی رقم ہے۔

ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا تھا کہ'' انہیں لگتا ہے کہ مغربی ممالک کے دارالحکومتوں (جن کا آئی ایم ایف پر اثرو رسوخ کافی زیادہ ہے) میں اس بات کی تشویش پائی جاتی ہے کہ ایک جانب فنڈ تو پاکستان اور مصر جیسے ترقی پذیر ممالک کو قرض فراہم کر رہا ہے۔ لیکن ایک اور بڑی معاشی قوت یعنی چین ایسی کوئی کوشش نہیں کر رہا جس سے ایسے ممالک کو قرضوں میں کوئی بڑا ریلیف مل سکے۔''

'مشکل معاشی صورتِ حال میں چین نے پاکستان کی کھل کر مدد کرنے سے گریز کیا ہے'

ڈاکٹر اقدس کے خیال میں شاید یہ بات ٹھیک بھی لگتی ہے کیوں کہ جس قدر چین کے وسائل ہیں وہ چاہے تو اپنے دیرینہ دوست یعنی پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے بڑی رقم فراہم کرسکتا ہے یا کم از کم قرضوں کی ادائیگی میں سہولت فراہم کرسکتا ہے۔

ان کے بقول چین کے پالیسی ساز شاید یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ ہم پہلے یہ قدم کیوں اٹھائیں۔ پہل تو آئی ایم ایف کو کرنی چاہیے یعنی دونوں ایک دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں اور ایسے میں وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ان کے خیال میں اس مشکل معاشی صورتِ حال میں چین نے پاکستان کی وہ مدد نہیں کی جو اسے کرنی چاہیے تھی۔

البتہ حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کے غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر ہیں۔چین کے انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک کی جانب سے پاکستان کو ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی سہولت رول اوور کردی گئی ہے جس سے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کسی حد تک اضافہ ہوگا۔

لیکن ڈاکٹر اقدس اس سے اتفاق کرتے نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نئی امداد نہیں اور نہ ہی اضافی ہے بلکہ یہ پہلے دیے گئے قرض کو رول اوور کیا گیا ہے اور اس مشکل وقت میں پاکستان کے لیےیہ مدد انتہائی ناکافی دکھائی دیتی ہے۔

'پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لے کر چین کا قرض نہ چکائیں'

دوسری جانب انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں سابق ایسوسی ایٹ ڈین ڈاکٹرہما بقائی کہتی ہیں کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے یہ بات واضح طور پر پاکستان کو بتائی گئی ہے کہ ہم سے قرضےلے کر چین کا قرض نہ اتارا جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چین کے قرضوں کے 'جال' سے متعلق شکوک و شبہات بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو چین کےمعاہدوں پر مغربی ممالک کی جانب سے ماضی میں بھی واضح تنبیہ کی جاتی رہی ہے اور یوں یہاں بنیادی اختلاف موجود ہے۔

ان کے بقول پاکستان کو قرض کی فراہمی میں تاخیر میں اس نکتے کا عمل دخل بھی موجود ہے۔ لیکن ایک بات جو پاکستان کو واضح ہوچکی ہے وہ یہ کہ اس مشکل معاشی صورتِ حال سے اسے آئی ایم ایف ہی نکال سکتا ہے۔

ڈاکٹر ہما کا کہنا تھا کہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ دوست ممالک کی مدد سے ملک کو موجودہ معاشی صورتِ حال سے نکال لیں۔ لیکن وہ نظریہ مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتا ہے اور اس سے کوئی مدد نہیں مل سکی۔

اس سوال پر کہ چین پاکستان کی کھل کر معاشی مدد کرنے سے کیوں کترا رہا ہے؟ ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ ایسا کہنا کہ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کوئی مسائل اور رکاوٹیں نہیں ہیں، یہ بالکل درست نہیں۔خاص طور پر پاکستان میں مقیم چینی شہریوں کی سیکیورٹی، پاور پلانٹس کو چلانے اور طے شدہ منافع کی ادائیگی میں تاخیر سمیت بہت سے شعبوں میں مسائل موجود ہیں۔لیکن عوامی سطح پر اس پر بات چیت سے گریز کیا جاتا ہے۔

پاکستان کبھی دیوالیہ ہوا ہے نہ ہو گا: وزیر تجارت نوید قمر
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:06 0:00

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسائل بڑے سنجیدہ نوعیت کے ہیں جس میں غیرملکی زرِمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر، کمزور معاشی اور مالیاتی گورننس سب سے اہم ہیں۔ایسے فیصلوں میں تاخٰیر سے صورتِ حال اور بھی گھمبیر اور بے قابو ہو رہی ہے۔

'چین پاکستان کے اقتصادی استحکام اور ترقی کے لیے حمایت جاری رکھے گا'

ادھر گزشتہ ہفتے چین کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کو دیے گئے قرضوں پر رعایت دینے سے متعلق سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ چین اور پاکستان نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور چین تمام فریقوں پر زور دیتا ہے کہ پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کیا جائے۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کسی بھی ملک کا براہِ راست نام لیے بغیر کہاتھا کہ ایک مخصوص ترقی یافتہ ملک کی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اور کئی ترقی پذیر ممالک بے پناہ مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کے ایک بڑے حصے کا تعلق مغربی ممالک کے زیرِ اثر مالیاتی اداروں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ قریبی اقتصادی اور مالی تعاون کرتا رہا ہے اور چین اقتصادی استحکام برقرار رکھنے اور ترقی کے حصول کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

'امریکہ چین کشیدگی میں پاکستان پیادہ نہیں'

اتحادی حکومت میں شامل پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ چین اور امریکہ کی جاری کشیدگی میں پاکستان پس رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کے بھیجے گئے سوالات کے تحریری جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس مفروضے کو غلط سمجھتے ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ امریکہ کی کشیدگی میں پیادہ نہیں ہے کیوں کہ پاکستان کی چین کے ساتھ ہمیشہ باہمی مفادات اور باہمی فائدے پر مبنی مضبوط دوطرفہ اسٹریٹجک شراکت داری رہی ہے اور پاک چین تعلقات کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہیں۔

ان کے بقول چین پاکستان کی مدد کرنے والا پہلا ملک ہے اور اب بھی گزشتہ ہفتے چین کی جانب سے تقریباً دو ارب ڈالر کے قرض کا رول اوور ایک بروقت بیل آؤٹ ہے۔

چند ماہ میں پاکستانی معیشت کو بہتر نہیں کیا جا سکتا، تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:42 0:00

ان کا کہنا تھا پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں تاخیر کا بہتر جواب حکومت ہی دینے کی پوزیشن میں ہے کہ آیا اس کی وجوہات سیاسی ہیں یا کچھ اور۔

تاہم ڈاکٹر اقدس یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس وقت حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایسی ٹھوس سفارتی کوششیں بھی نہیں کی گئی جس سے پاکستان دنیا کو یہ باور کرواسکتا کہ ہمارے معاشی مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ لوگوں کے لیے غذائی اشیا خریدنا تک مشکل ہوچکا ہے۔ جس کے لیے اسے قرضوں میں رعایت دی جائے ۔

ڈاکٹر ہما بقائی کے بقول زمینی حقائق اس قدر تلخ ہوں تو ایسے میں سفارتی کوششوں کا کوئی خاص اثر ہوہی نہیں سکتا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیےپہلے اپنے ہی ملک کے معاملات کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG