سرگرم کارکنوں نے جمعرات کے روز بتایا کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے ممتاز سرگرم کارکن اور صحافی سپیدہ قلیان کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے جیل سے آزاد ہونے کے چند گھنٹوں بعد دوبارہ گرفتار کر لیا۔
28 سالہ قلیان کو بدھ کے روز تہران کی اوین جیل سے رہا کیا گیا تھا۔انہیں 2018 میں ہڑتالی تحریک کے بارے میں رپورٹنگ کرنے کے جرم میں دی جانے والی سزا کاچار سال سے زیادہ عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔
امریکہ میں قائم ایران سے متعلق ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نیوز ایجنسی کے مطابق، قلیان کو بدھ کو دیر گئے، اس وقت دوبارہ گرفتار کیا گیا جب ان کے اہل خانہ انہیں کار کے ذریعے تہران سے جنوب مغربی ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر دزفول میں ان کے گھر لے جارہے تھے ۔
ایجنسی نے بتایا کہ اس بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ہیں کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے یا ان پر کیا الزام لگایا گیا ہے۔
اوین جیل سے رہائی کے فوراً بعد، انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں خامنہ ای کے خلاف سخت نعرے لگائے تھے۔
انہوں نے دو بار چیخ کر کہا، ظالم خامنہ ای، ہم تمہیں زمین پر گھسیٹیں گے۔
انہوں نے خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے ڈریس کوڈ کی سخت پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، سر پر اسکارف بھی نہیں پہنا تھا، اور ویڈیو میں انہوں نے،ان خواتین کی رہائی پر زور دیا جنہیں کارکن سیاسی قیدیوں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔
ایران سے باہر کی میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری کے دوران، جو کہ وسطی ایران کے شہر اراک کے قریب ایک سڑک پر ہوئی، ان کے خاندان اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم بھی دیکھنے میں آیا۔
ایران انٹرنیشنل ٹی وی نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ان کی والدہ کو بھی پولیس کی گاڑی میں لے جایا گیا لیکن پھر انہیں سڑک کے کنارے گاڑی سے باہر دھکیل دیا گیا اور گاڑی ان کی بیٹی کو لے کر تیزی سے چلی گئی۔
جیل میں، قلیان اپنے حامیوں کو بھیجے جانے والے خطوط اور پیغامات کے ذریعے ان زیادتیوں کے خلاف ایک مضبوط آواز بنیں ، جو بقول ان کے ایرانی جیلوں میں خواتین کے ساتھ روا رکھی جاتی ہیں۔
ایران میں قید بہت سی خواتین وہ ہیں جنہیں 16 ستمبر کو ایک نوجوان ایرانی کردخاتون مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہونے والے احتجاجات سے بہت پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
مہسا امینی کو مبینہ طور پر خواتین کے لباس کے ضابطے کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں ہونے والے کریک ڈاؤن میں زیرِ حراست خواتین کی تعداد بہت بڑھ گئی۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)