صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے پر مبنی 'سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل' پارلیمان کو واپس بھجوا دیا ہے۔ صدر کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
صدر علوی نے ہفتے کو بل واپس بھجواتے ہوئے کہا کہ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے کے باعث عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے۔ لہذٰا اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے کے لیے دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس بھجوانا ضروری ہے۔
صدرِ مملکت کا کہنا تھا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیلی، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے۔ مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔
صدر کا کہنا تھا کہ یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے؟ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔
صدر نے بل پر اعتراض عائد کرتے ہوئے مزید کہا کہ آئین ایک اعلیٰ قانون ہے، قوانین کا باپ ہے۔ آئین کوئی عام قانون نہیں، بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی۔
صدر علوی کے بقول سپریم کورٹ کے ان رولز پر 1980 سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے۔
صدر کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کے لیے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔ آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے۔ آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔
عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 142 اے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے۔ فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔
خیال رہے کہ مذکورہ بل اس ہفتے پارلیمان سے منظوری کے بعد صدرِ مملکت کو بھجوایا گیا تھا۔ حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے بل کی منظوری کو سپریم کورٹ کے اختیارات ختم کرنے کی منصوبہ بندی قرار دیا تھا۔