رسائی کے لنکس

بھارت: کیمروں کے سامنے قتل ہونے والے عتیق احمد کون تھے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی ریاست اتر پردیش میں پریاگ راج (الہ آباد) میں پندرہ بیس پولیس اہلکاروں کے ہجوم میں دو افراد کو ہتھکڑی میں طبی معائنے کے لیے اسپتال کے احاطے میں لے جایا جا رہا تھا۔ ان کے چاروں طرف ذرائع ابلاغ کے افراد کیمرے اور مائیک لیے کھڑے تھے۔

ان دونوں افراد پر درجنوں کیمروں کی نگاہیں تھیں۔ ان میں سے ایک شخص صحافیوں سے گفتگو کر رہا تھا کہ اسی درمیان گلے میں میڈیا کا شناختی کارڈ لٹکائے ایک شخص ان کی جانب بڑھتا ہے اور کیمرے کے سامنے اس شخص کی کنپٹی پر پستول رکھ کر گولی چلا دیتا ہے۔

فائرنگ سے وہ شخص اسی جگہ ڈھیر ہو جاتا ہے۔ دوسرے شخص پربھی گولی چلائی جاتی ہے۔ دونوں کی موت اسی جگہ ہو جاتی ہے۔ ایسے منظر کو فلمی زبان میں ’لائٹ کیمرہ ایکشن‘ کہا جاتا ہے۔

لیکن یہ کوئی فلمی سین نہیں تھا۔ یہ ایک حقیقی واردات ہے جو اترپردیش کے پریاگ راج ،جس کا پرانا نام الہ آباد تھا، کے ایل ایم این میڈیکل کالج کے احاطے میں ہفتے کی رات میں ساڑھے دس بجے پیش آئی۔

ہلاک ہونے والوں کے نام عتیق احمد اور اشرف احمد ہیں۔ عتیق اترپردیش اسمبلی اور پارلیمان کے رکن رہ چکے ہیں۔ اشرف بھی رکن اسمبلی رہے ہیں۔ وہ عتیق کے بھائی ہیں۔

انہیں ایک قتل کے کیس میں پولیس کی پانچ روزہ تحویل میں دیا گیا تھا۔ عتیق کو احمد آباد کی سابرمتی جیل سے اور اشرف کو بریلی جیل سے الہ آباد لایا گیا تھا۔ عدالتی حکم پر انہیں طبی معائنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔

حملہ آور تین تھے جن کو فائرنگ کر کے فوری طور پر پکڑ لیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق گولی چلاتے وقت حملہ آوروں نے جے شری رام کا نعرہ لگایا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق تینوں حملہ آور 18 سے 22 سال کی عمر کے ہیں جب کہ ان کا پہلے بھی مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔

رپورٹس کے مطابق حملہ آور مافیا ڈان بننا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے یہ واردات انجام دی۔

انہوں نے واردات کو انجام دینے کے لیے ترک ساختہ ’زگنانا‘ پستول کا استعمال کیا جس پر بھارت میں پابندی ہے۔

عدالت نے انہیں 15 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا ہے۔ اس واردات کے بعد احتجاج بھی ہو رہا ہے۔

حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ ریاست میں امنِ عامہ نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

عتیق احمد کون ہیں؟

عتیق احمد الہ آباد میں 1962 میں ایک غریب تانگے والے محمد فیروز کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد مالی کمزوری کی وجہ سے انہیں بہتر تعلیم نہیں دلوا سکے۔ وہ اسکول ڈراپ آؤٹ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عتیق نے غربت کی زندگی سے باہر نکلنے کے لیے جرم کا راستہ اپنایا۔

ٹرینوں سے کوئلہ چوری کرنے سے ان کی مجرمانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے ریلوے اسکریپ کی ٹھیکیداری شروع کر دی۔

رفتہ رفتہ ان کی مجرمانہ سرگرمیاں بڑھتی گئیں اور وہ مافیا ڈان، گینگ لیڈر، ہسٹری شیٹر اور دبنگ کہلائے جانے لگے۔

ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب لوگوں کے مطابق الہ آباد میں ان کی دہشت قائم ہو گئی۔ یہاں تک کہ 10 ججوں نے ان کے خلاف مقدمات کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا۔

ان کی شادی شائستہ پروین نامی خاتون سے ہوئی۔ ان کے پانچ بیٹے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی پورے خاندان کو جرم کی دنیا میں شامل کر لیا تھا۔ شائستہ اس وقت روپوش ہیں۔ حکومت نے ان پر 50 ہزار روپے کا انعام رکھا ہوا ہے۔

ان کا بڑا بیٹا عمر لکھنؤ جیل میں ہے تو دوسرا بیٹا علی پریاگ راج کی نینی جیل میں ہے۔ تیسرے بیٹے اسد کو گزشتہ جمعے کو جھانسی کے نزدیک "پولیس اینکاؤنٹر " میں ہلاک کیا جا چکا ہے جب کہ دو سب سے چھوٹے بیٹے نابالغ ہیں اور وہ "جوینائل ہوم" میں ہیں۔

عتیق احمد کے خلاف کتنے مقدمات ہیں؟

عتیق احمد کے خلاف قتل، اقدام قتل، اغوا، فراڈ، دھمکیوں اورزمینوں پر قبضوں کے الزام میں 100سے زائد مقدمات درج ہیں۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق ان کے خلاف پہلا کیس 1979 میں ایک قتل کے معاملے پردرج ہوا تھا۔

ان کے خلاف بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رکن اسمبلی راجو پال کے قتل کا بھی الزام ہے۔

اس کیس میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر راجو پال معاملے کے ایک اہم گواہ امیش پال کے قتل کا بھی الزام ہے۔

سیاست میں آمد

عتیق احمد نے 27 سال کی عمر میں 1989 میں سیاست میں قدم رکھا تھا۔ انہوں نے ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے الہ آباد ویسٹ حلقے سے اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔

اس کے بعد اسی حلقے سے انہوں نے 1991، 1996، 1999 اور 2022 میں مسلسل کامیابی حاصل کی۔

پہلے دو انتخابات وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑے۔ تیسرے میں سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی نے ان کے خلاف کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا اور ان کی حمایت کی۔ 1996 میں وہ سماج وادی پارٹی سے اور 2002 میں اپنا دل سے کامیاب ہوئے۔

وہ 2004 میں پھولپور پارلیمانی حلقے سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ پھولپور کسی زمانے میں ملک کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا پارلیمانی حلقہ ہوا کرتا تھا۔

انہوں نے 2009 میں پرتاپ گڑھ، 2014 میں شراوستی، 2018 میں پھولپور اور 2019 میں وارانسی سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف الیکشن لڑے تھے لیکن وہ ان تمام میں شکست سے دوچار ہوئے۔

عتیق احمد کی املاک

اس دوران عتیق احمد نے کافی جائیداد بنائی۔ ریئل اسٹیٹ اور ریلوے کے اسکریپ کے ٹھیکے نے ان کی دولت کو بہت زیادہ بڑھایا۔

انہوں نے مبینہ طور پر شیل کمپنیاں بھی بنائیں جہاں ناجائز طریقے سے کمائی گئی دولت کو وائٹ کیا جاتا تھا۔

حالیہ دنوں میں ریاستی حکومت نے ان کے خلاف تیزی سے کارروائیاں شروع کی تھیں۔ مارچ 2023 تک اترپردیش پولیس نے ان کے خاندان کی 11684 کروڑ روپے کی املاک ضبط کیں۔

عتیق احمد کے زوال کا آغاز

بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 24 فروری کو امیش پال کے قتل کے بعد عتیق احمد کا تیزی سے زوال شروع ہوا۔ محض 50 دنوں کے اندر ان کا پورا خاندان تباہ ہو گیا۔

رپورٹ کے مطابق پہلے ان کا بیٹا اینکاؤنٹر میں مارا گیا۔ اس کے بعد وہ اور ان کے بھائی کو قتل کر دیا گیا۔

پولیس نے ان کی متعدد عمارتوں کو بلڈوزر سے توڑ دیا ہے۔

انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے دعویٰ کیا ہے کہ عتیق کی شیل کمپنیوں کی تعداد 50 ہے۔ ان کے قتل سے ایک روز قبل ای ڈی نے بڑی مقدار میں ہتھیار برآمد کیے تھے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ عتیق احمد کے ہیں۔

ای ڈی کی جانب سے ان کی 1400 کروڑ روپے کی املاک ضبط کی گئیں۔ ای ڈی کی 15 ٹیموں نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کی کارروائی تیز کر دی تھیں۔ ای ڈی نے مبینہ طور پر عتیق کی 108 کروڑ کی املاک کا بھی انکشاف کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق عتیق اور ان کے بھائی کو الہ آباد کی اسی قبرستان میں دفن کیا گیا جس میں ان کے بیٹے کو دفن کیا گیا تھا۔

پولیس نے صرف ان کے خاندان کے قریبی لوگوں کو ہی تدفین میں شرکت کی اجازت دی تھی۔ تدفین میں شرکت کی خواہاں بہت بڑی تعداد قبرستان کے باہر موجود تھی۔

عتیق احمد کی ہلاکت کے بعد حکومتی اقدامات

حکومت نے پوری ریاست میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ الہ آباد میں انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئی ہیں۔

شہر میں پولیس کا گشت جاری ہے۔ دیگر حساس شہروں میں بھی اضافی فورس تعینات کر دی گئی ہے۔

واردات کے وقت عتیق کی سکیورٹی میں شامل پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

حکومت نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے تین رکنی عدالتی کمیشن قائم کیا ہے۔

ایک ایڈووکیٹ وشال تیواری کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں کمیٹی کے قیام کی اپیل کی گئی ہے۔

اس اپیل میں 2017 کے بعد سے اترپردیش میں اینکاؤنٹر کے 183 واقعات کی بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

شہر کی صورتِ حال

رپورٹس کے مطابق الہ آباد شہر میں امن ہے تاہم مسلم اور غیر مسلم محلوں میں متضاد ردِعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔

شہر کے بعض افراد نے نام راز میں رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واردات کے بعد جہاں مسلمانوں میں غم و غصہ ہے وہیں ہندوؤں کے ایک طبقے میں جشن کا ماحول ہے۔ مسلمانوں کے ایک طبقے کی جانب سے اس قتل کی مذمت کی جا رہی ہے وہیں ہندوؤں کے بعض حلقے اسے درست قرار دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رمضان اور عید کے تہوار کی وجہ سے مسلمان احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ شہر میں امن ہے لیکن لوگوں کو تشدد کا اندیشہ بھی ہے۔ اسی وجہ سے اتوار کو تمام بازار بند رہے۔ پیر کو کچھ دکانیں کھلی ہیں لیکن بیشتر اب بھی بند ہیں۔

مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ عتیق احمد اور ان کے بھائی کے قتل کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہب کے نام پر عوام میں جو خلیج پیدا کی گئی ہے وہ اور وسیع ہو گئی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں، سماجی کارکنوں، قانون دانوں اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے پولیس کی موجودگی اور کیمرے میں پر اس قتل پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں نے اسے لا اینڈ آرڈر کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں قانون کا نہیں بندوق کا راج ہے۔

ان کے مطابق ریاست میں اینکاؤنٹر کا دور دورہ ہے۔

انھو ں نے اسے حکومت کی زبردست ناکامی قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG