دنیا کے امیر ترین جمہوری ممالک پر مشتمل جی سیون گروپ نے چین کی جانب سے تائیوان کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات اور شمالی کوریا کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے جاری تجربات پر سخت موقف اپنانے کا عہد کیا ہے۔
جاپان میں ہونے والے اجلاس میں گروپ کے کے سرکردہ سفارت کاروں نے یوکرین کے لیے اپنی حمایت بڑھانے اور روس کو اس کے حملے کی سزا دینے کی کوششوں کو تقویت دینے کا بھی اعادہ کیا۔
جاپان کے موسم بہار کے سیاحتی شہر کروایزاوا میں منعقدہ اجتماح کے دوسرے روز پیر کو سفارت کار زیادہ تر وقت یوکرین پر روس کے جنگ کے موضوع پر گفتگو پر وقف کریں گے۔ اس اجلاس کا مقصد اگلے ماہ ہیروشما میں ہونے والے جی سیون صدارتی اجلاس میں بات چیت کی راہ ہموار کرنا ہے۔
اس موقع پر یوکرین میں لڑائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جاپان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ وزیر خارجہ کے ریمارکس کے مطابق یوشیماسا حیاشی نے زور دیا کہ دنیا کو طاقت کے ذریعےعالمی صورت حال کو تبدیل کرنے کی یک طرفہ کوششوں، یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیوں کو سختی سے مسترد کرنا چاہیے۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق امریکی وفد کے لیے جی سیون سفارت کاروں کی یہ ملاقات ایسے وقت میں ہورہی ہے جو روس کے یوکرین پر حملے اور چین سے نمٹنے کی کوششوں کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔
یہ دو ایسے مسائل ہیں جنہیں جی سیون گروپ میں شامل ممالک جاپان، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، اٹلی اور یورپی یونین دوسری جنگ عظیم کے بعد کے قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کے لیے بڑے چیلنجز سمجھتے ہیں۔
وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے ساتھ سفر کرنے والے ایک سینئر امریکی اہل کار نے صحافیوں کو بتایا کہ اس فورم پر بات چیت میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا مقصد یوکرین کے لیے گروپ کے گزشتہ سال کے توانائی کے ڈھانچے کے پروگرام اور کیف کے لیے فوجی امداد کی مسلسل فراہمی سمیت حمایت کو بڑھانا ہے۔
امریکی اہل کار نے بتایا کہ تنازع کے باعث روس کے خلاف ان اقتصادی اور مالیاتی پابندیوں کے ذریعے سزا کو بڑھانا بھی ایک ترجیح ہوگی جن کے بارے میں دسمبر 2021 میں جنگ شروع ہونے سے پہلے ماسکو کو دھمکی دی گئی تھی۔
اے پی کے مطابق یوکرین کو آنے والے ہفتوں میں ایک اہم لمحے کا سامنا ہے جب کہ روس کی موجودہ جارحیت بڑی حد تک رک گئی ہے اور یوکرین جوابی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔
امریکی اہل کار، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بند کمرے کے سفارتی اجلاسوں میں بلنکن کی ترجیحات پر بات کی، کہا کہ یوکرین کے طویل مدتی دفاع اور "ڈیٹرنس" کی صلاحیتوں کے لیے حمایت کو تقویت دینے کے طریقوں پر بات چیت ہوگی۔ اس اقدام سے ممکنہ مذاکرات کے لیے کیف کی پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے جس سے یوکرین کو اپنی شرائط پر تنازع کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
جاپان جی سیون گروپ کا واحد ایشیائی ملک ہے اور اس سال کے مذاکرات کے بحیثیت چیئرمین ٹوکیو کا کردار چین کے خلاف مربوط کارروائی پر بات چیت کا ایک اہم موقع ہے۔
فرانس اور جرمنی سمیت جی سیون گروپ میں شامل ملکوں کے سربراہان اور وزرائے خارجہ نے حال ہی میں چین کے دورے کیے۔ توقع ہے کہ گروپ کی کارویزاوا میٹنگ میں شامل سفارت کار ان ممالک سے چین کے مختلف امور پر موقف پر گفت و شنید کریں گے۔ ان مسائل میں یوکرین، شمالی کوریا، اور امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات میں متنازع نقطہ تائیوان شامل ہیں۔
اتوار کی شب ایک نجی ورکنگ ڈنر میں، جو سفارت کاروں کی پہلی باضابطہ ملاقات کا موقع تھی، جاپان کے وزیر خارجہ حیاشی نے چین کے ساتھ بہت سے ان عالمی چیلنجوں پر بات چیت جاری رکھنے پر زور دیا جہاں بیجنگ کی شرکت کو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔
بیجنگ کے ایسے مفادات جو دولت مند جمہوریتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان میں عالمی تجارت، مالیات اور آب و ہوا کی تبدیلی کی روک تھام کی کوششیں شامل ہیں۔
تاہم سفارت کار شمال مشرقی ایشیا میں چین کے زیادہ جارحانہ حالیہ مؤقف کو بھی حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ حال ہی میں بیجنگ نے تائیوان کو جس پر وہ اپنے ملک کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے دھمکی دی ہے۔
اے پی کے مطابق جاپانی وزیر خارجہ نے شرکت کرنے والے وزراء کو بتایا کہ بیرونی ممالک کو "تعمیری اور مستحکم تعلقات استوار کرنا جاری رکھنا چاہیے، ساتھ ہی ساتھ براہ راست اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اور چین سے بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر کام کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
حال ہی میں چین نے تائیوان کا گھیراو کرنے کے لیے اپنے طیارے اور بحری جہاز خطے میں بھیجے۔ اس کے علاوہ بیجنگ تیزی سے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ چین بحیرہ جنوبی چین پر اپنے دعوے پر سخت موقف اختیار کر رہا ہے اور آنے والے تصادم کا منظر نامے کی عکاسی کر رہا ہے۔
ان حالات میں جاپان میں پائی جانے والی تشویش کو اس بات سے جانچا جا سکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں ٹوکیو نے دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف دفاع تک اپنائے گئے اصولوں کو آج کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے پیش نظر اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اس سال فروری میں بیجنگ کا دورہ کرنے والے تھے، لیکن امریکی فضائی حدود میں ایک چینی جاسوس غبارے کے واقعے کی وجہ سے ان کا یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ ابھی تک اس دورے کا دوبارہ شیڈول نہیں بنایا گیا ہے۔
البتہ بلنکن نے میونخ سیکیورٹی فورم کے موقع پر چین کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی سے مختصر ملاقات کی تھی۔ لیکن واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے کم ہو گئے ہیں۔
سینئر امریکی اہل کار نے کہا کہ اس طرح، بلنکن اپنے فرانسیسی اور جرمن ہم منصبوں سے چینیوں کے ساتھ بات چیت کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے اس حالیہ تبصرے کے باوجود کہ جی سیون کا گروپ چین کے معاملے پر منقسم ہے ، اے پی کے مطابق اہل کار نے کہا کہ گروپ کے ممبر ملکوں میں بیجنگ کے اقدامات کے پر تشویش پا ئی جاتی ہے۔اہل کار نے مزید کہا کہ میٹنگ میں شامل وزرائے خارجہ چین کے ساتھ مربوط نقطہ نظر کوبرقرار رکھنے پر تبادلہ خیال کریں گے۔
دوسری طرف شمالی کوریا بھی جاپان اور خطے کے دیگر پڑوسیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
پیانگ یانگ نے گزشتہ سال تقریباً 100 میزائلوں تجربے کیے جن میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں جو امریکی سرزمین تک پہنچنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں شمالی کوریا نے کم فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے تجربات بھی کیے جو جنوبی کوریا اور جاپان کے لیے خطرہ ہیں۔
اپنے ریمارکس میں جاپان کے ایک خلاصے کے مطابق حیاشی نے شمالی کوریا کی جانب سے گزشتہ ہفتے کے تجربوں سمیت کیے گئے بیلسٹک میزائلوں کے تجربے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے شمالی کوریا کی جانب سے بیلسٹک میزائلوں کے بار بار داغے جانے کی شدید مذمت کی۔
(اس خبر میں شامل مواد اےپی سے لیا گیا ہے)