سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور دیگر شہروں میں ملک کی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے درمیان تیسرے روز بھی جھڑپیں جاری ہیں جب کہ خرطوم میں یورپی یونین کے سفیر پر تشدد کی بھی اطلاعات ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ایلچی وولکر پرتھیس نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا ہے کہ لڑائی میں اب تک 185افراد ہلاک جب کہ 1800 زخمی ہوچکے ہیں۔
امریکی وزیرِخارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ انہوں نے سوڈان کی فوج کے کمانڈر جنرل عبدالفتح البرہان اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے کمانڈر جنرل محمد حمدان دقلو سے بات کی ہے اور جنگ بندی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی بہت سے شہری مارے جاچکے ہیں۔
اینٹی بلنکن نے سفارتی اہلکاروں اور امدادی کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا ہے۔
ادھر یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بورال نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ سوڈان کے لیے یورپی یونین کے سفیر کو ان کے گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
واضح رہے کہ اقتدار کی اس لڑائی میں سوڈان کی فوج کے کمانڈر جنرل عبدالفتح البرہان اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے کمانڈر جنرل حمدان دقلو آمنے سامنے ہیں۔دونوں جرنیلوں نے 2021 میں مارشل لا کے دوران ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔ تاہم اب دونوں جنرلوں کے درمیان جاری لڑائی نے خانہ جنگی کے خدشات بڑھا دیے ہیں۔
یہ لڑائی ایسے موقع پر شروع ہوئی ہے جب سوڈانی شہری عشروں پر محیط فوجی حکمرانی کے بعد جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق فریقین کے درمیان گنجان آباد علاقوں میں ٹینکوں، آرٹلری اور بھاری ہتھیاروں سے لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔ خرطوم اور دیگر علاقوں میں لڑاکا طیارے بھی پرواز کر رہے ہیں جب کہ اینٹی ایئرکرافٹ گنوں کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
خرطوم کے وسطی علاقوں میں کئی مقامات پر لاشیں پڑی ہونے کی اطلاعات ہیں لیکن ان تک پہنچنا ممکن نہیں۔سرکاری سطح پر اب تک ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ البتہ ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے شہری ہلاکتوں کی تعداد 97 بتائی تھی۔
لڑائی میں مارے جانے والوں کی تعداد میں اضافے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سوڈان میں دو جرنیلوں کے درمیان جاری اس لڑائی کے بعد سے لاکھوں افراد اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ لوگوں کے پاس کھانے پینے کی اشیا ختم ہوتی جا رہی ہیں جب کہ اسپتالوں کو بھی زبردستی بند کردیا گیا ہے۔
مختلف ممالک کےسفارت کار اس لڑائی کو بند کرانے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کر رہے ہیں جب کہ اس مسئلے کے حل کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔
خورطم کے جنوبی ضلع کی ایک رہائشی خاتون اور ہزاروں چائے فروخت کرنے والوں کی یونین کی سربراہ عوضیہ محمود نے 'اے پی' کو بتایا ہے کہ ہر طرف گولیاں اور شیلنگ کی بوچھاڑ ہے۔ان کے ہمسائے کے گھر اتوار کے روز ایک شیل گرا جس سے تین افراد ہلاک ہوگئے۔ "ہم انہیں نہ اسپتال لے جاسکےاور نہ ہی انہیں دفنا سکے۔'
اس خبر کے لیےزیادہ تر موادخبر رساں ادارے' ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔