اطلاعات کے مطابق سوڈان کے دارالحکومت میں منگل کے روز سوڈان کے حریف کمانڈروں کے درمیان 24 گھنٹے کی ایک جنگ بندی طے پاگئی ہے لیکن لڑائی جاری رہی اور یہ واضح نہیں تھا کہ آیا یہ جنگ بندی برقرار رہے گی۔
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک خرطوم کے مختلف حصوں میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سن رہے ہیں، خاص طور پر فوجی ہیڈکوارٹرز اور ریپبلکن محل، مسند اقتدار، کے ارد گرد کے علاقوں میں۔
دار الحکومت اور دوسرے شہروں میں لاکھوں سوڈانی باشندے حریف فورسز کے درمیان مسلح جھڑپوں میں پھنسے اپنے گھروں میں چھپے ہوئے ہیں جب کہ حریف فورسز نے رہائشی علاقوں میں توپوں سے گولہ باری کی اور فضائی حملے کیے اور مسلح جھڑ پوں کی اطلاعات ہیں ۔
رہائشیوں نے بتایا کہ سڑکوں پر لاشیں بکھری ہوئی ہیں اور جھڑپوں کی وجہ سے ان تک رسائی ممکن نہیں اور مرنے والوں کی تعداد ہفتے کے روز لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اقوام متحدہ کی جانب سے رپورٹ کی گئی 185 اموات سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ گزشتہ روز خرطوم میں جنگجوؤں نے امریکی سفارت خانے کے ایک قافلے پر حملہ کیا اور سوڈان کے لیے یورپی یونین کے سفیر کے گھر دھاوا بولا اگرچہ کسی بھی حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت خانے کے واضح نشانات والی گاڑیوں پر پیر کے روز حملہ کیا گیا اور ابتدائی رپورٹس میں حملہ آوروں کو تیزی سے مدد فراہم کرنے والی فورسز سے منسوب کیا گیا جو سوڈان کی فوج سے لڑنے والا پیرا ملٹری گروپ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قافلے کا ہر فرد محفوظ رہا ۔
یہ تشدد ایسے موقع پر ہوا ہے جب سوڈانی باشندے عشروں کی فوجی حکمرانی کے بعد ایک جمہوری، سویلین حکومت کی بحالی کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر بلنکن نے جنگ بندی کی کوششوں میں اضافہ کر دیا ۔
انہوں نے پیر کو دونوں حریف جنرلز ، مسلح فورسز کے سربراہ جنرل عبدل فتاح برہان اور آر ایس ایف کے لیڈر جنرل محمد حمدان دگالو سے فون پر بات کی۔
دگالو نے منگل کو ایک سلسلے وار ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے بلنکن سے بات کرنے کے بعد انسانی ہمدردی کی 24 گھنٹے کی جنگ بندی کی منظوری دے دی ہے ۔
بعد میں العربیہ اور الجزیرہ سیٹلائٹ چینلز نے لیفٹننٹ جنرل سمش الدین کباشی کے حوالےسے بتایا کہ فوج مقامی وقت کے مطابق چھ بجے سے جنگ بندی پر عمل کرے گی ۔ سی این این عربک چینل نے بھی بر ہان کے حوالے سے بتایا کہ فوج ایک دن کی جنگ بندی کی ایک فریق بنے گی۔
تاہم فوجی عہدے داروں کی طرف سے جنگ بندی کے بارے میں کوئی عوامی اعلان نہیں ہوا۔
جنگ بندی شروع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے ، سیاسی جماعتوں کے ایک اتحاد اور جمہوریت نواز گروپس کے ایک اتحاد نے کہا کہ اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک روز کے وقفے کے بارےمیں فوجی اور آر ایس ایف کے راہنماؤں کی جانب سے مثبت موقف موصول ہوئے ہیں ۔ اس نے ایک بیان میں کہا کہ اس جنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے گفت و شنید جاری ہے ۔
رہائشیوں نے بتایا کہ منگل کی صبح فوج کے مزید ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں فوجی ہیڈ کوارٹرز اور ری پبلکن محل کی طرف بڑھتے ہوئے خرطوم میں داخل ہو گئیں ۔
فوجی ہیڈ کوارٹرز کے ارد گرد اور قریبی ہوائی اڈے کے قریب سہ پہر تک جھڑپوں کی رپورٹس ملیں دونوں بڑے جنگی علاقے ہیں ۔ دونوں فریقوں کے درمیان مرکزی اڈوں اور اہم سرکاری عمارتوں کے ارد گرد سارا دن لڑائی جاری رہی ،جو سب ہی رہائشی علاقے ہیں ۔
یہ لڑائی چار سال قبل سوڈان کی ایک عوامی شورش کے بعد سے جس نے مطلق العنا ن عمر البشیر کو اقتدار سے الگ کرنے میں مدد کی تھی، سوڈان کے بحران کا تازہ ترین باب ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے ۔