سوات میں دھماکے جس میں پولیس اہلکاروں اور شہریوں کی جانیں گئیں ہیں اس کے بعد وادی میں خوف اور غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔کہیں ظالم ساۓ وادی کو اپنے گھیرے میں تو نہیں لے لیں گے؟ کہیں وادی میں طالبان کے جتھے ڈیرہ تو نہیں ڈال لیں گے؟۔کہیں خوبصورت جنت جیسی وادی پر جہاں قدرت نے بہار کی چادر ڈالی ہوئی ہے، وہاں طالبان مقامی باشندوں کو ان رونقوں سے محروم تو نہیں کردیں گے؟
جتنے ذہن، اتنے وسوسے، آخر کیوں نہ ہوں۔
پندرہ سولہ برس قبل مولوی فضل اللہ اور اسکے طالبان کمانڈروں نے جو مظالم ڈھاۓ تھے، کون بھول سکتا ہے۔ منگورہ شہر کے بیچگرین چوک جسے مقامی لوگ“خونی چوک” گردانتے تھے۔ جہاں طالبان اپنے حریفوں کو قتل کرنے کے بعد ان سر لٹکایا کرتے تھے۔ بہادر ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ، دھماکے، سکول کالجوں پر قفل اور بچیوں کے اسکولوں میں دھماکے۔ طالبان کا ریڈیو، فتوے۔۔۔
لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی،موسیقی اور ہر قسم کے آرٹ کی پرفارمنس پر قذغن غرض گانا بجانا، رقص ممنوع تھا۔ ان دنوں طالبان کے دور میں اکثر سوات جانا ہوا۔ ایک دفعہ جب منگورہ شہر کے اس “خونی چوک” پر کھڑا تھا۔ میرے مقامی ساتھی شہزاد، ناصرداوڑ اور ظفر اشاروں سے بتا رے تھے کہ یہاں دھماکہ ہوا تھا۔ وہاں حریفوں کو طالبان نے قتل کیا تھا۔ غرض شاید ہی ایسا کوئی بازار یا چوراہا ہو جو طالبان کی دہشت گردی سے محفوظ رہا ہو۔ ایک طرف وادی کے رنگ اور دوسری طرف ظلم و ستم کی یہ کہانیاں۔ مجھے یادوں نے گھیر لیا۔
بچپن میں مجھے شاہ ایران اور ملکہ فرح دیبا کو گلدستہ پیش کرنے کے لیے چنا گیا۔ آبائی شہر لاڑکانہ کا مو ہنجو داڑو ایئرپورٹ۔ شاہ ایران نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس،سرخ رنگ کی ٹائی، ملکہ فرح دیبا کا ہیروں جڑا تاج، رنگ برنگے زیورات، گلے میں چمکتا دمکتا ہار۔ ٹارمک پر سرخ قالین۔ میں جب گھر واپس لوٹا تو میری والدہ اور محلے پڑوس کی عورتوں نے تجسس سے پوچھا،”ملکہ کیسی لگ رہی تھیں‘‘ ؟
میں نے کہا، “جیسے قوس و قزح کے رنگوں میں پری ہو‘‘۔ لیکن جب اگلے دن ممجھے ایئرپورٹ پر میرے ہاتھوں شاہ ایرا ن اور ملکہ فرح دیبا کو گلدستہ پیش کرنے کی تصویر تھمائی گئی تو وہ بلیک اینڈ وائٹ تھی۔ مجھ پر تو جیسے سکتا طاری ہوگیا، کیونکہ میرے ذہن میں اور وجود کے ساتھ تو ایئرپورٹ کے رنگ جڑے ہوۓ تھے۔ اور تصویر میں رنگ غائب۔ میں اسوقت “خونی چوک” پر کھڑاایسے ہی محسوس کررہا تھا۔ لگتا تھا طالبان نے خوبصورت وادی سوات سے اس کی زندگی چھین لی ہو ، اس بلیک اینڈ وائٹ تصویرکی طرح۔
میری ملاقات زیارت گل سی بھی ہوئی جس کی یادوں پر سرخ خون کے دھبے اب بھی موجود تھے۔ اس کی بہن کو طالبان نے ہلاک کر کے اس “خونی چوک” پر جہاں میں کھڑا تھا، وہاں لاش لٹکائی تھی۔ شبانہ کا قصور اس کا ناچ گانے کا پیشہ تھا۔لاش پر کرنسی نوٹ، اس کی پر فارمنس کی تصویریں۔ اگلے روز زیارت گل، دو کزنز اور والد ہی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں میں تھے۔
میں اس کی دوست شہناز سے بھی ملا جو خود کافی مشہور فنکارہ تھی۔ شہناز کو اپنی دوست شبانہ کی سسکیاں یاد تھیں۔
“میں اپنے دیوار کے سوراخ سے دیکھ سکتی تھی۔ پگڑیوں اور لمبے بال، داڑھیوں والے طالبان اردگرد تھے۔ ہاتھ میں بندوقیں۔ وہ گڑ گڑا رہی تھی۔۔۔مجھے نہ مارو۔مجھے نہ مارو۔ فائرنگ کی آوازیں اور دم توڑتی سسکیاں۔۔۔”
رحمان بابا کے مزار پر قبضہ۔ ایک پیر جو طالبان کے خلاف مزاحمت میں مارا گیا۔ ساتھیوں نے اسے دفن کر دیا لیکن طالبان نے اس کی لاش کو قبر سے نکال کر درخت سے لٹکایا۔ ظلم و ستم کی حد تھی۔
بالآخر فوجی آپریشن ہوا۔ سوات کے لاکھوں باشندوں کا انخلاء۔ بے سر و سامان، بے یار و مددگار۔ غریب ہو یا امیر ، بچہ ہو یا جوان یا بوڑھا، عورت ہو یا مرد سب کو اپنے اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا۔ صوابی، مردان، چارسدہ، پشاور کے گرد و نواح کے علاقوں میں لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے سوات کے لوگوں کے لیے کھول دیے۔
چند ماہ ہی میں سوات کے لوگوں کی واپسی ممکن ہوئی۔منگورہ میں جشن کا سا سماں تھا۔
لیکن جگہ جگہ پر سیکیورٹی فورسز کی چوکیاں، تلاشیاں، کبل ، مٹہ، بحرین، کالام سے منگورہ میں داخل ہونے پر سخت مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا تھا۔ گھنٹوں، گھنٹوں انتظار۔ سوات کے باشندوں کو گھٹن محسوس ہونا شروع ہوئی، ان کو لگا پہلے طالبان اور اب جگہ جگہ سیکیورٹی اہل کار۔ ادھر سیکیورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ وادی کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی چاہیے۔ سول سوسائٹی کے اراکین اور مقامی باشندوں کے گلے، شکوے اور مطالبوں کے برسہا برس بعد سوات کے سیکیورٹی انتظامات خیبر پختونخواہ اور مقامی انتظامیہ کے حوالے کر دیے گۓ۔
وادی سوات میں زندگی کی رونقیں ادھوری ہی سہی مگر لوٹتی نظر آئیں ۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاہد غم و الم کی داستانیں وادی سوات کے وجود سے ہمیشہ جڑی رہیں گئیں۔ ان ہی دنوں میری ملاقات والئ سوات کے خاندان سے تعلق رکھنی والی سماجی اور سیاسی شخصیت مسرت احمد زیب سے ہوئی۔ وہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے جو طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی بیواؤں کی مدد کرتی تھیں۔
یہ خواتین کپڑوں پر رنگ برنگ دھاگے اور سوئی سے کڑھائی کرتی تھیں۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ اپنے اور وادی کی زخم زدہ زندگی میں پھر سے رنگ بھرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
ماہ و سال بیت گئے۔ لیکن جب سے افغانستان میں طالبان کی واپسی ہوئی اور انہوں نے کابل کی باگ ڈور سنبھالی، سوات کے باشندوں کو خوف اور وسوسوں نے گھیر ہوا ہے۔ اور کیوں نہ ہو ! ان باشندوں کی وادی پر ظلم ڈھانے والے پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کا “بھائی پنتھ” ہی سمجھا جاتا ہے۔
ادھر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی ان طالبان سے بات چیت کی کوششیں، سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل فیض ان مذاکرات میں پیش پیش، ایک پاوں کابل میں تو دوسرا پشاورمیں۔ ان مذاکرات میں خیبر پختونخواہ حکومت اور قبائلی عمائدین بھی شامل۔ اسی دوران سوات میں ہزاروں مقامی افراد کے ان مذاکرات کے خلاف مظاہرے۔ ان باشندوں کا کہنا تھا کہ سوات میں طالبان کی واپسی ہو رہی ہے۔“غیر فعال” پالیسیوں پر تنقید۔
پھر اچانک پاکستانی طالبان سے مذاکرات ناکام۔ طالبان کے حملوں میں تیزی، دھماکوں اور دہشت گرد حملوں میں سیکیورٹی اورپولیس اہل کار اور متعدد شہریوں کی ہلاکتیں۔ اب طالبان کے خلاف “اینٹلی جنس” کی بنیاد پر آپریشن جاری ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں سوات کے باشندے اعصابی تناؤ کا شکار ہیں۔ خوف نے گھیرا ڈالا ہو ا ہے کہ کہیں طالبان کے ظالم ساۓ ان کی وادی میں بسیرا نہ ڈال لیں۔ اگر آپریشن ہوا تو پھر انہیں اپنی وادی کو مجبوراً چھوڑنا نہ پڑ جاۓ۔
مجھے یاد ہے کئی برس قبل جب منگورہ شہر میں ایک بزرگ نے اپنی بپتا سنائی تھی۔
”میں نے اپنی وادی کو اجڑتے دیکھا۔ میرا کاروبار تباہ ہوا۔ میں نے دوست کے بیٹےکو جو طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا، اس کا جنازہ اپنے بوڑھے کاندھوں پر اٹھایا۔ کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔لیکن جو اعصابی دکھ نقل مکانی میں جھیلا وہ بیان نہیں کر سکتا۔ اب دعا اور خواہش یہ ہی ہے کہ طالبان کبھی نہ لوٹیں اور نہ کبھی اپنی وادی کو چھوڑنا پڑے۔”
“۔۔۔ جب ہم وادی میں واپس آۓ تو ہم دوستوں نے پرکھوں کی قبروں پر جا کر وعدہ کیا تھا۔ اگر طالبان کی واپسی ہوئی تو ہم مزاحمت کریں گے۔ اپنی وادی میں جان دینا پسند کریں گے نہ کہ وادی کو چھوڑ کر۔۔۔”