طالبان نے جمعہ کے روز کہا کہ افغانستان میں خواتین کو اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے سے روکنے کا ان کا فیصلہ ’’ افغانستان کا اندرونی ثقافتی معاملہ‘‘ہے جس کا تمام ممالک کو احترام کرنا چاہیے۔
طالبان کا یه بیان اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کی جانب سے خواتین پر پابندی کی مذمت میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کیے جانے اور طالبان رہنماؤں سے افغان خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر پابندیاں فوری طور پر اٹھانے کا مطالبہ کرنے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔
90 سے زائد ممالک کے تعاون سے پیش کی جانے والی اس قرارداد میں طالبان کی طرف سے افغان خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے حصول میں بڑھتی ہوئی رکاوٹوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے جمعہ کو کہا کہ، ’’ افغان خواتین کو اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ کام کرنے سے روکنے کے اپنے فیصلے کی مذمت کیے جانے پر ، ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ افغانستان کا اندرونی ثقافتی معاملہ ہے جس کا بیرونی ملکوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا‘‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ، ’’ ہم افغان خواتین کے تمام حقوق کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں اور اس سلسلے میں تنوع کے احترام پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے‘‘ ۔
بیان میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے ان حصوں کو سراہا گیا جن میں افغان قیادت اور افغانوں کی ملکیت میں حق خودارادیت کا اصول بھی شامل ہے۔
طالبان کے بیان میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں انسانی ہمدردی کے بحران کی وجہ اس پر عائد اقتصادی پابندیاں ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جنگ کے بعد بحالی کی جانب بڑھنے کے لیے افغانستان کو انسانی اور ترقیاتی امداد کی فراہمی کے علاوہ اس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو غیرمشروط طور پر اٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی یہ قرارداد متحدہ عرب امارات اور جاپان کی طرف سے تیار کی گئی تھی جس میں افغان خواتین پر عائد پابندی سے متعلق کہا گیاہے کہ ’’ اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘‘۔
افغان معاشرے میں خواتین کے’ ناگزیر کردار‘ پر زور دیتے ہوئے قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی، انسانی حقوق اور انسانی اصولوں کو مجروح کرتی ہے۔
سال 2021 میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے طالبان نے عوامی زندگی تک خواتین کی رسائی پر بھی کنٹرول سخت کر دیا ہے، جس میں خواتین کو یونیورسٹی جانے سے روکنا اور لڑکیوں کے ہائی اسکول بند کرنا شامل ہے۔
(ایاز گل، وی او اے نیوز)