بدھ آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا ۔ اس دن کا مقصد دنیا بھر میں خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔ عالمی دن کی مناسبت سے پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی عورت مارچ کے عنوان سے ریلیاں منقعد کی گئیں ۔ اس سال اس دن کی تھیم ڈیجیٹل اسپیس میں خواتین کے حقوق کا تحفظ اور انٹرنیٹ تک ان کی رسائی ممکن بنانا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے حکومت اور انصاف کے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ بلوچستان میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے واقعات کا نوٹس لیں۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، اقوام متحدہ نے طالبان حکام سے خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق پر سخت پابندیوں کو روکنے اور انہیں واپس لینے کے لیے اپنے مطالبے کی تجدید کی ہے۔
سال رواں کے دوران ایک کروڑ 16 لاکھ افغان خواتین اور لڑکیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ضرورت ہے - اس کے باوجود طالبان حکام نے غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی لگا کر بین الاقوامی امدادی کوششوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جو ان کی زندگی گزارنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اقوام متحدہ نے بدھ کو کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر طالبان کی پابندیوں نے ان میں سے زیادہ تر کو اپنے گھروں میں مکمل طور پر قید کر دیا ہے، جس سے افغانستان خواتین کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ جابرانہ، ملک بن گیا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب خواتین کارکنان افغان دارالحکومت کابل کی گلیوں میں حکمران طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم اور کام تک رسائی پر پابندی کے خلاف دوروز تک احتجاج کے لیے جمع ہوئیں۔
وہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو دوبارہ کھولنے اور ان کے کام کرنے کے حق کے لیے مطالبہ کر رہی تھیں ۔
احتجاجی خواتین زندگی، انصاف اور آزادی کے نعرے لگا رہی تھیں ۔ کابل ریلی میں مظاہرین میں سے ایک نے کتبہ اٹھا رکھا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ افغان لوگوں کی قسمت کے بارے میں فیصلہ کن اور سنجیدہ اقدام کرے۔
افغان خواتین کارکنوں کا کہنا تھا کہ اگر عالمی برادری افغان خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہے تو اسے خالی بیانات جاری کرنے کی بجائے عمل کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے 18 ماہ سے زائد عرصے میں وہ اپنے تمام حقوق کھو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پیر کو خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کے اجلاس میں کہا تھا کہ افغان عبوری حکومت نے خواتین اور لڑکیوں کا عوامی زندگی سے مکمل طور پر صفایا کر دیا ہے۔ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی میں کوئی کردار نہیں رہا ۔
گوتیریس نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ ہر صورت میں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کا مطالبہ جاری رکھے گا۔
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی خواتین کی سربراہ کے حالیہ دورہ افغانستان کا حوالہ دیتے ہوئے، گوتریس نے کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق جائز ہیں، اور جب تک انہیں سماجی انصاف نہیں مل جاتا ہم ان کے حقوق کے لیے لڑنا بند نہیں کریں گے۔
یورپی یونین کے نمائندے نے اس موقع پر کہا کہ یورپی یونین کو افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش ہے
اسی دوران ، یوناما کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو افغانستان کی صورت حال پر بریفنگ دی۔
کابل میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ نے کہا کہ طالبان کی حکمرانی میں افغانستان ،خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا کا جابر ترین ملک ہے اور افغان خواتین اور لڑکیوں کو عوامی دائرے سے باہر دھکیلنے کے لیے ان کی دانستہ اور منظم کوششوں کا مشاہدہ کرنا بڑا تکلیف دہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے انسانی اور معاشی بحرانوں کےشکار ملک کی نصف آبادی کو اپنے گھروں تک محدود رکھنا قومی نقصان پہنچانے کا ایک بہت بڑا عمل ہے۔انہوں نے طالبان سے اپنے مطالبے کو دوہراتے ہوئے مزید کہا کہ سخت پابندیوں کو اٹھایا جائے ۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ خواتین کے حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن سے، کئی دہائیوں سے جنگ میں گرفتار افغانستان کی بحالی کے امکانات کو نقصان پہنچے گا اور اس کے تمام شہریوں کو آنے والی کئی نسلوں تک غربت کی سزا ملے گی۔
افغان خواتین کے لیے امریکہ کی خصوصی ایلچی رینا امیری نے افغان خواتین کے نام ایک کھلے خط میں کہا کہ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کی سربراہی میں امریکہ اور افغانستان میں مشاورت کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے میرا کھلا خط ہے جس میں میری یکجہتی کا اظہار اور میری وابستگی کا اعادہ کیا گیا ہے۔ امیری نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے افغانستان کی 45 سے زائد خواتین لیڈروں سے بات چیت کی۔
امیری کے مطابق، خواتین رہنماؤں نے انہیں بتایا ہے کہ غیر سرکاری تنظیموں پر طالبان کی پابندی نے سول سوسائٹی کو تباہ کر دیا ہے۔ امیری نے خواتین کی زیر قیادت سول تنظیموں کی حمایت پر زور دیا۔
طالبان رہنماؤں نے اپنی حکمرانی پر نئی بین الاقوامی تنقید کا فوری جواب نہیں دیا۔ صرف مردوں کی حکمرانی والی طالبان انتظامیہ نے کہا کہ اس کی پالیسیاں افغان ثقافت اور اسلامی قانون کے مطابق ہیں۔ افغانستان اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں علماء نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو مقامی ثقافت اور نہ ہی اسلام ،خواتین کی تعلیم اور عوامی زندگی تک رسائی پر پابندی لگاتا ہے۔
منگل کو طالبان کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر ندا محمد ندیم نے کابل میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ انہوں نے خواتین کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی تھی بلکہ اسے عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ طالبان پر خواتین کے دشمن ہونے کا بلا جواز اور غیر منصفانہ الزام لگایا جا رہا ہے۔
ندیم نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ہم کسی فرد کی سفارشات پر عمل نہیں کر سکتے۔لوگوں کو ہم سے ایسے مطالبات نہیں کرنے چاہییں جو ہماری روایت کے خلاف ہیں اور ہمارے رسم و رواج اور ہمارا مذہب جن کی اجازت نہیں دیتا۔
بدھ کو سری لنکا میں بھی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سینکڑوں مظاہرین نے ریلی نکالی اور حکومت سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔پولیس نے سڑک بلاک کر دی ۔
یہ ریلی اپوزیشن نیشنل پیپلز پاور پارٹی کی جانب سے منعقد کی گئی۔ مظاہرین نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات فوری طور پر ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا۔سری لنکا سات دہائیوں سے زائد عرصے میں اپنے بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور ڈالر کی کمی نے اشیائے ضروریہ کی درآمدات میں خلل ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں باقاعدہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کےلیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)