رسائی کے لنکس

شام کی عرب لیگ کے پہلے اجلاس میں گیارہ برس بعد شرکت


سعودی عرب کی عرب لیگ کے اجلاس میں شام کو شرکت کی دعوت
سعودی عرب کی عرب لیگ کے اجلاس میں شام کو شرکت کی دعوت

سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے عرب لیگ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں اس موقع پر عرب ریاستوں کی لیگ میں شامی عرب جمہوریہ کو خوش آمدید کہتا ہوں‘‘۔ اس کارروائی کو سرکاری ٹی وی چینل الاخباریہ نے براہ راست نشر کیا۔جدعان نے مزید کہا کہ وہ ’’ مقصد کے حصول کی خاطر ہر ایک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں‘‘ ۔ ان کے اس بیان کے وقت کیمرے کا فوکس شامی وفد پر تھا۔

نومبر 2011 میں عرب لیگ نے اس وقت شام کی رکنیت معطل کر دی تھی جب شام نے ملک گیر مظاہروں کے خلاف پر تشدد کارروائی کا آغاز کیا جو ایک تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا ۔ اس تنازعے میں اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک جب کہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں ۔

عرب ممالک پر مشتمل اس لیگ نے اس ماہ کے شروع میں سرکاری طور پر شام کی حکومت کا خیرمقدم کیا جس کے نتیجے میں صدر بشار الاسد کی عرب ممالک ( کے بلاک ) میں واپسی یقینی ہو گئی ۔

سعودی شاہ سلمان نے اسد کو بحیرہ احمر کے ساحلی شہر جدہ میں جمعہ کو ہونے والی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے، جو لیبیا میں 2010 کے اجلاس کے بعد پہلا موقع ہے۔

خطے کے ممالک بشار الا سد کے لیے بتدریج نرمی اختیار کر رہے ہیں کیونکہ وہ اقتدار پر قابض رہے اور ایران اور روس کی اہم حمایت سے کھوئے ہوئے علاقے کو بھی واپس حاصل کر لیا ۔ متحدہ عرب امارات نے 2018 میں شام کے ساتھ دوبارہ تعلقات قائم کر لیے تھے اور وہ دمشق کی دوبارہ شمولیت کی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔

عرب لیگ سربراہی اجلاس
عرب لیگ سربراہی اجلاس

عرب یکجہتی

چھ فروری کو ترکی اور شام میں آنے والے مہلک زلزلے کے بعد سفارتی سرگرمیاں تیز ہوئیں۔ شام کے قریبی اتحادی ممالک سعودی عرب اور ایران نے مارچ میں دوطرفہ تعلقات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس نے علاقائی سیاسی منظر نامے کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔

ریاض نے 2012 میں اسد کی حکومت سے تعلقات منقطع کر لیے تھے اور طویل عرصے سے شامی رہنما کی معزولی کی کھل کر حمایت کرتا آیا ہے تاہم اس نے گزشتہ ہفتے تصدیق کی تھی کہ دونوں ممالک متعلقہ سفارتی مشنز پر کام دوبارہ شروع کر دیں گے۔

اس وقت شام کی سرحدوں پر زیادہ تر خاموشی ہے لیکن شمال کے بڑے حصے حکومتی کنٹرول سے باہر ہیں اور تنازع کا کوئی سیاسی حل نظر نہیں آرہا ہے۔

سعودی عرب میں نو عرب ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں نے شام کے بحران پر گزشتہ ماہ تبادلہ خیال کیا اور شام سمیت پانچ علاقائی وزرائے خارجہ نے یکم مئی کو اردن میں ملاقات کی۔عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیث کے نائب حسام ذکی کے ایک بیان کے مطابق انہوں نے پیر کو کہا کہ شام کی (لیگ میں ) واپسی سے ’’عرب یکجہتی کے اصول‘‘ کو بحال کیا جا سکتا ہے۔

سنگین چیلنجز

لیکن خطے کے ہر ملک نے اسد کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔قطر نے اس ماہ کہا تھا کہ وہ اسد کی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا ۔ تاہم قطر نے یہ بھی کہا کہ کہ وہ عرب لیگ کے دوبارہ انضمام میں ’’رکاوٹ‘‘ نہیں بنے گا۔

ابو الغیث نے کہا کہ خطے میں بعض تنازعات کے خاتمے سے پیدا ہونے والے ’’مثبت ماحول‘‘ کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس حقیقت سے دور نہیں ہونا چاہیئے جو برسوں سےعرب خطے کے سامنے ہے اور جو سنگین چیلنجوں کا مجموعہ اور مرکب ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ( چیلنجوں ) میں سے ایک ’’بے گھر ہونے والوں کی ایک نئی لہر‘‘ تھی جو ممکنہ طور پر سوڈان میں ایک ماہ پرانے تنازعے کا حوالہ ہے جس نے تقریباً دو لاکھ افراد کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا ہے اور ملک کی سرحدوں کے اندر مزید لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔

توقع ہے کہ جمعہ کو ہونے والی سربراہ کانفرنس کے دوران یہ تنازعہ ایجنڈے کا اہم موضوع ہو گا ۔

سعودی عرب کے ایک سینئر سفارت کار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ آرمی چیف عبدالفتاح البرہان اس (تنازعے کے) اہم کردار دو جرنیلوں میں سے ایک ہیں۔ ان کو سوڈان کی نمائندگی کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ (اجلاس میں ) کون شرکت کرے گا۔

برہان اور ان کے مخالف نیم فوجی رہنما محمد حمدان ڈگلو کے نمائندے سعودی عرب اور امریکہ کے تعاون سے بات چیت کے لیے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے جدہ میں ہیں۔دونوں فریقوں نے جمعرات کے روز ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں انسانی فلاح کے اصولوں کا احترام کرنے کا عہد کیا گیا لیکن وہ ابھی تک ممکنہ جنگ بندی کی شرائط پر متفق نہیں ہوئے۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)

XS
SM
MD
LG