عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کے بعد سعودی عرب کے شاہ سلمان نے شامی صدر بشار الاسد کو تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
عرب لیگ کا اجلاس 19 مئی کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہونا ہے جس میں تنظیم کے رکن ممالک کے رہنما شریک ہوں گے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق شاہ سلمان کی جانب سے بشار الاسد کو جدہ میں عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کی دعوت کو شام اور اس کی حکومت کی خطے میں تنہائی کے خاتمے کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
چار روز قبل ہی عرب لیگ میں شامل رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں 12 برس بعد اس تنطیم میں شام کی رکنیت کی بحالی کی منظوری دی گئی تھی۔
شام کی عرب لیگ کی رکنیت 2011 میں اس وقت منسوخ کر دی گئی تھی جب بشار الاسد کی حکومت نے ملک میں جاری احتجاج کو دبانے کے لیے شدید کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔
شام میں گزشتہ ایک دہائی سے جاری خانہ جنگی کے دوران سعودی عرب اور قطر سمیت کئی خلیجی ملک بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
دوسری جانب شام کی حکومت کی فورسز نے ایران اور روس کی معاونت سے بغاوت کو کچلنے میں کامیابیاں حاصل کیں اور ملک کے بڑے حصے کا کنٹرول واپس حاصل کر لیا۔
بشار الاسد کے ساتھ خلیجی ممالک کے تعلقات میں رواں برس شام میں آنے والے ہلاکت خیز زلزلے کے بعد تیزی سے بہتری کا آغاز ہوا تھا۔
سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان نے گزشتہ ماہ دمشق کا دورہ بھی کیا تھا، اور دو روز قبل انہوں نے شام میں سعودی عرب کا سفارت خانہ بھی دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اردن میں سعودی عرب کےسفیر نائف بن بندر السدیری نے شام کے صدر بشار الاسد کو عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کا شاہ سلمان کا دعوت نامہ پہنچایا۔
بشار الاسد آخری بار 2010 میں لیبیا میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
عرب لیگ کا قیام 1945 میں عمل میں لایا گیا تھا جس کے بانی ملکوں میں مصر، عراق، اردن، لبنان، سعودی عرب اور شام شامل تھے۔ اس وقت تنظیم کے ارکان کی تعداد 22 ہےجب کہ سات ممالک کو مبصر کا درجہ حاصل ہے جن میں بھارت، آرمینیا، وینزویلا، برازیل، یونان، چاڈ اور ایریٹریا شامل ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ نے شام کی عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت پر تنقید کی تھی اور امریکہ اور برطانیہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ بشار الاسد کی حکومت سے تعلقات بحال نہیں کریں گے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ "ہمارا مؤقف بالکل واضح ہے کہ امریکہ بشار الاسد اور ان کی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائے گا۔"
واضح رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں گزشتہ ماہ سے اس وقت تیزی سے تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں جب چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب نے کئی برس سے منقطع تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سعودی عرب نے 2016 میں تہران میں اپنے سفارت خانے پر ہونے والے حملے کے بعد ایران سے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا تھا جب ایران نے سعودی عرب کی جانب سے شیعہ عالم نمر النمر کو پھانسی دینے کے اقدام کی شدید مذمت کی تھی۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سات برس تک کشیدگی جاری رہی تھی۔
سعودی عرب اور ایران میں تعلقات بحال ہونے کے بعد جہاں شام کی عرب لیگ میں واپسی ہوئی ہے وہیں یمن میں بھی قیامِ امن کی امید کی جا رہی ہے جہاں کئی برس سے جنگ جاری ہے اور ملک کے ایک بڑے حصے پرحوثی باغی قابض ہیں، جنہیں ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔