رسائی کے لنکس

ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں امریکی عوام کو کس صورتِ حال کا سامنا ہو سکتا ہے؟


امریکی ڈالر، فائل فوٹو
امریکی ڈالر، فائل فوٹو

قرض کی حد پر واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات کا اگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، جس کے سبب حکومت وہ رقوم ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گی جن سے ملک کی ایک چوتھائی معیشیت چلتی ہے تو ملک میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ اس کا ایک خاکہ خبررسااں ادارے رائٹر نے کھینچا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ فوری طور پر امریکی اپنے ریٹائرمنٹ اکاؤنٹس پر اس کے تکلیف دہ اثرات دیکھیں گے۔ اسٹاک مارکٹیں شدید مندی کی زد میں آ جائیں گی اور چند ہی دنوں کے اندر، وفاقی حکومت کی جانب سے ادائیگیاں نہ ہونے کے سبب، ملک بھر میں ڈاکٹروں کے دفاتر، ریٹائرڈ لوگوں اور ملازمتوں کی جگہوں پر اس کے گہرے اثرات نظر آ سکتے ہیں۔

یہ سب شروع کس طرح ہوگا

اگر امریکی کانگریس اور وائٹ ہاؤس 31 اعشاریہ 4 کھرب ڈالر کی وفاقی قرض کی خود عائد کردہ قانونی حد کو اٹھانے میں کامیاب نہ ہوئے تو وزیر خزانہ جینٹ یلین کے مطابق ہو سکتا ہے کہ یکم جون سے محکمہ خزانہ وہ ادائیگیاں کرنے کے قابل نہ رہے، جو اسے کرنی ہیں۔

اس وقت واشنگٹن پر امریکی بانڈز کی مد میں ادائیگیاں جاری رکھنے کے لیے سخت دباؤ ہو گا جو عالمی مالیاتی نظام کو سہارا دیتے ہیں۔ اگر ایک بھی ادائیگی رک گئی تو وال اسٹریٹ تاریخی مندی کا شکار ہو جائے گی اور موڈیز انیلسٹکس کے اکنامسٹ مارک زاندی کے مطابق یہ تباہ کن ہو گا۔

زاندی نے کہا کہ اگر محکمہ خزانہ، بانڈ ہولڈرز کو وقت پر ادائیگی کی کوشش بھی کرے گا، جیسے کہ بیشتر مبصرین توقع کر رہے ہیں ، اس بحران کو جنم دینے والا سیاسی نقص، امریکہ کے معاشی امکانات میں عدم اعتماد کا بیج بو دے گا۔ اور امریکیوں کی ملکیت والی ہر چیز ، ان کے مکانات سے لے کر ان کے ریٹائرمنٹ پورٹ فولیو تک بیشتر کی قیمت گر جائے گی۔اسٹاک کی قیمتیں گریں گی۔ کمرشل رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں، مکانوں کی قیمتیں، غرض ہر چیز کی قیمتیں گر جائیں گی۔

ملک میں شرح سود بھی بڑھ جائے گی، جس کے نتیجے میں کوئی مکان یا کار خریدنا یا کوئی کاروبار شروع کرنے کے لیے قرض لینا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔

ماہر معاشیات زاندی کا مزید کہنا تھا کہ پھر چند ہی دنوں میں یہ مالیاتی تباہی ، معیشت کو کساد بازاری کی راہ پر ڈالنے والی ایک بڑی قوت بن جائے گی۔

کیا صورت حال اس سے بھی بد تر ہو سکتی ہے

ڈیفالٹ کے بعد ملازمتوں میں بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ،جو عام طور پر کساد بازاری کے ساتھ ہی آتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ چند ہفتوں ہی میں شروع ہو جائیں۔ مزید فوری طور پر یہ کہ سینکڑوں ارب ڈالر جو وفاقی اخراجات کی صورت میں فراہم ہوتے, معیشت میں نہیں آ سکیں گے۔

ڈاکٹروں کے دفاتر، اسپتال اور انشورنس کمپنیاں ، ہو سکتا ہے کہ ڈیفالٹ کے اثرات کی زد میں آنے والے پہلے گروپوں میں شامل ہوں۔ واشنگٹن کے روزمرہ واجب الادا بلوں کا تخمینہ لگانے والے تھنک ٹینک ’ بائی پارٹیزن پالیسی سینٹر ک‘ ے مطابق ، یکم جون کو حکومت کو میڈی کیر کی مد میں 47 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جو کہ امریکہ کے معمر لوگوں کے لیے پبلک ہیلتھ انشورنس کا پروگرام ہے

میڈی کیر، امریکہ میں ہیلتھ کیر نظام کے تقریباً پانچویں حصے کو فنڈز فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹروں کے پاس عملے کو دینے اور دوسرے بلوں کی ادائیگی کے لیے رقم نہ رہے۔ ادائیگیوں کے قابل نہ ہونے کی صورت میں، آپریشن یا دوسرے طبی پروسیجرز کے لیے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ اے ایف ایف ریسرچ گروپ کی ہیلتھ پالیسی کی ماہر ٹریسیا نیومین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ جتنا طول کھنچے گا، اتنا ہی زیادہ تکلیف دہ ہوتا جائے گا۔

اس کے علاوہ 2 جون کو ملک کے ایک چوتھائی ریٹائرڈ لوگ یہ دیکھنے کے لیے اپنے بینک اکاؤنٹ چیک کریں گے کہ 25 ارب ڈالرز جو سوشل سیکیورٹی کی مد میں جاتے ہیں، اس میں سے ان کے حصے کی رقم ان کے اکاؤنٹ میں آئی ہے یا نہیں۔

ڈیفنس کانٹریکٹرز سمیت دوسرے سرکاری کانٹریکٹرز کی ادائیگیاں بھی رک سکتی ہیں۔ تقریباً 20 لاکھ وفاقی ملازمین کے کچھ حصے کی تنخواہیں بھی رک سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں ایک ارب ڈالر کی فیڈرل فنڈنگ کی توقع کرنے والے اسکولوں کو ہو سکتا کہ اس کے بغیر ہی کام چلانا پڑے۔

(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

XS
SM
MD
LG