رسائی کے لنکس

مائنس کپتان کی چہ مگوئیاں: 'پاکستان میں عمران خان کے بغیر سیاست کا کوئی چانس نہیں'


پاکستان میں جہاں ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں وہیں تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پارٹی سے 'مائنس' کیے جانے اور میڈیا پر ان کی کوریج کا بائیکاٹ کیے جانے کی چہ مگوئیاں بھی ہونے لگی ہیں۔

ان قیاس آرائیوں کو تقویت پPTI کے رہنماؤں کے مسلسل پارٹی یا پارٹی کے عہدے چھوڑنے کے اعلانات سے ہوتا ہے۔ اور اس طرح کا تازہ ترین اعلان عمران خان کے قریبی رفیق اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے سابق وزیر اعلی اور صوبائی صدر پرویز خٹک کی جانب سے آیا ہے۔جنہوں نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران نہ صرف پارٹی عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا بلکہ نو مئی کے واقعات کی مذمت بھی کی۔

حالیہ چند روز کے دوران پی ٹی آئی کے کئی رہنما پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں اور بعض منحرف ارکان نے جہانگرین ترین اور دیگر سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔انہی میں سے ایک ملاقات بدھ کو اڈیالہ جیل میں پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی سے ہوئی ہے جس کے بعد پی ٹی آئی کے تقسیم در تقسیم کی افواہوں میں تیزی آ گئی ہے۔

اڈیالہ جیل میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرنے والوں میں فواد چوہدری، عمران اسماعیل، عامر کیانی اور محمود مولوی شامل تھے، جو حال ہی میں پی ٹی آئی سے الگ ہوئے ہیں۔

اس ملاقات کے بعد بعض مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ غالبأ ان رہنماؤں نے شاہ محمود قریشی کو عمران خان سے الگ ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

واضح رہے کہ عمران خان نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ ان کی گرفتاری یا نااہل ہونے کی صورت میں شاہ محمود قریشی یا پرویز خٹک جیسے سینئر رہنما پارٹی کے امور دیکھیں گے۔

شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں کھل کر اپوزیشن کی سیاست کرنے کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی اسد قیصر، حماد اظہر، فرخ حبیب سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں سے بات بھی ہوئی ہے۔

فواد چوہدری کے اس بیان کے بعد مذکورہ تمام رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیانات میں فواد چوہدری کی جانب سے پریس کانفرنس میں کئے جانے والے دعویٰ کی تردید کی۔

فواد چوہدری کی پریس کانفرنس کے بعد سے تحریکِ انصاف کے کارکن سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور ٹوئٹر پر عمران خان کے حق میں مختلف ٹرینڈز بھی چلا رہے ہیں جہاں وہ 'عمران خان کے بغیر سیاست نہیں' اور 'عمران خان ہی پی ٹی آئی ہیں' جیسے کلمات پوسٹ کر رہے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت ہیش ٹیگ 'عمران خان ہی ہو گا' اور 'نو خان نو ٹی وی' ٹاپ ٹرینڈ بنے ہوئے ہیں۔

کامران واحد نامی ٹوئٹر صارف نے پی ٹی آئی رہنما خرم حبیب کے ایک ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے پنجابی میں لکھا کہ "سو باتوں کی ایک بات عمران خان ہی ہو گا۔" خرم حبیب نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ عمران خان کے بغیر کوئی سیاست نہیں۔

شہریار بخاری نامی ٹوئٹر صارف نے کہا کہ اگر عمران خان خود بھی یہ کہیں کہ تب بھی ہمارے لیے مائنس عمران خان نامظور کیوں کہ محب وطن غیور عوام کے لیے اب بس عمران خان ہی ہو گا۔

جبران الیاس نامی ٹوئٹر صارف نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ آپ نے بہت سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے خصوصا تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو جنہوں نے گزشتہ چند برسوں میں آپ بہت ڈھیر سارا پیار دیا ہے۔

جبران نے مزید لکھا کہ آپ سمجھدار ہیں اور عوام کی نبض جانتے ہیں کہ عمران خان کو مائنس کرنا نہیں چل سکتا۔

فرید ملک نے کہا "یاد رکھو کوئی رہے نہ رہے عمران خان تو ہوگا ، عمران خان پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی عمران خان ہے۔ اس وقت قوم عمران خان کے ساتھ ہے اور کوئی ہو نہ ہو اس سے نہ اس کو فرق پڑتا نہ اس کی تحریک کو اللہ کی مدد اور عوام کے ساتھ سے عمران خان ہی ہوگا۔

علی اعوان نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ "عمران خان کے بغیر سیاست بے معنی ہے۔ عمران خان کا ووٹ حقیقی تبدیلی کے لیے ہماری آواز ہے۔ جب تک حوصلہ و ہمت ہے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں!"

سوشل میڈیا پر عمران خان سے اظہارِ یکجہتی ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا نے ٹی وی چینلز کو ہدایت کی ہے کہ وہ "عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے والوں کو ایئر ٹائم نہ دیں۔"

پیمرا کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 'سیاسی جماعتوں کے نمائندہ' نفرت پھیلانے والے عناصر ،عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں لہذا ملکی امن کے لیے نقصان دہ ایسی سرگرمیوں کا میڈیا پر مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیے۔

پیمرا کے اس نوٹی فکیشن سے قبل پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ "عمران خان کے خوف سے، اُن کا نام اور تصویر، ٹی وی چینلنز پر چلانے پر پابندی کی خبر آرہی ہے۔ پھر تو حکومت کو 1992 ورلڈ کپ کے نتائج کے خلاف نظرِ ثانی اپیل دائر کرنی چاہیے۔"

XS
SM
MD
LG