وال سٹریٹ جرنل نے منگل کے روز رپورٹ دی ہے کہ چین اور بھارت نے حالیہ ہفتوں میں ایک دوسرے کے تقریباً تمام صحافیوں کو ملک بدر کر دیا ہے۔ یہ تازہ ترین اقدام ہے جو ایشیائی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
چین نے بدھ کے روز کہا کہ اس نے چینی صحافیوں کے ساتھ ہندوستان کے،غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک کے جواب میں ،مناسب، کارروائی کی ہے
اخبار نے کہا کہ بھارتی حکومت نے ملک میں چینی سرکاری میڈیا کے آخری دو صحافیوں کے ویزےکی مئی میں تجدید نہیں کی ۔ ان میں سے ایک شنہوا کے لیے اور دوسرا چائنا سینٹرل ٹیلی ویژن کے لیے کام کرتا ہے۔
جرنل نے کہا کہ چار صحافی اب بھی چین کے اندر، ہندوستانی آؤٹ لیٹس میں مقیم ہیں، لیکن ان میں سے کم از کم دو کو ملک واپس جانے کے لیے ویزا نہیں دیا گیا ہے۔ تیسرے کو بتایا گیا کہ اس کے صحافتی کارڈ کو منسوخ کر دیا گیا ہے، لیکن وہ اب بھی چین میں ہے۔
دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کے درمیان تعلقات 2020 میں متنازعہ چین بھارت سرحد پر مہلک تصادم کے بعد سے مزید خراب ہو گئے ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چینی صحافیوں کے ساتھ بھارت میں برسوں سے غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا رہا ہے۔
ترجمان ماو ننگ نے ایک بریفنگ میں کہا کہ جو میں آپ کو بتا سکتی ہوں وہ یہ ہے کہ ، چینی صحافیوں کے ساتھ بھارت میں ایک طویل عرصے سے غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے، اور 2017 میں،بھارت نے بغیر کسی وجہ کے چینی صحافیوں کے ویزے کی میعاد کم کر کے تین ماہ یا ایک ماہ کر دی تھی
ماؤ ننگ نے کہا کہ ہندوستان کی جانب سے اس طویل اور غیر معقول دباؤ کے پیش نظر، چینی میڈیا کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے چین کو بھی مناسب جوابی اقدامات کرنا تھے
ماؤ ننگ نے کہا کہ ہندوستان میں باقی رہ جانے والے آخری چینی صحافی کے ویزےکی میعاد بھی ختم ہو چکی ہے۔
بھارت کے اخبار دی ہندو کے نامہ نگار اننت کرشنن نے بدھ کے روز ٹویٹ کیا کہ بیجنگ میں ہمارے پاس صرف ایک منظور شدہ بھارتی رپورٹر ہے - اور بدقسمتی سےوہ بھی نہیں رہے گا
ماؤ ننگ کہتی ہیں کہ حالات کی معمول پر واپسی اس بات پر منحصر ہے کہ کیا بھارت بھی اسی سمت میں کام کرسکتا ہے جس میں چین کر رہا ہے ، اور چینی صحافیوں کو ہندوستان میں وہی سہولت اور مراعات فراہم کر سکتا ہے،جو چین دے رہا ہے
واشنگٹن میں ہندوستان کے سفارت خانے سے وی او اے نے جب تبصرہ کرنے کی درخواست کی تو اس کی ای میل کا جواب نہیں دیا گیا
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چین کا صحافیوں کے ویزوں پر کسی دوسرے ملک کے ساتھ تنازعہ ہوا۔ 2020 میں جب واشنگٹن نے امریکہ میں چینی سرکاری میڈیا کے نامہ نگاروں کی تعداد کو محدود کرنے کا اقدام کیا تو بیجنگ نے جواباً متعدد امریکی صحافیوں کو اسی وقت نکال دیا
دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ ہی چین اور نہ ہی بھارت اپنی سرحدوں کے اندر پریس کی آزادی کے خاص طور پر سخت محافظ ہیں۔ میڈیا کی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق، 180 ممالک میں، آزادی صحافت کے لحاظ سے بھارت 161 ویں نمبر پر ہے اور چین 179 ویں نمبر پر ہے۔
اس رپورٹ میں کچھ معلومات ایجنسی فرانس پریس اور رائٹرز سے آئی ہیں۔