11 مئی کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے لاپتہ ہونے والے یوٹیوبر اور صحافی عمران ریاض خان کے متعلق تاحال کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے جہاں بظاہر پولیس بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔
تین ہفتوں بعد بھی عمران ریاض کو بازیاب نہ کرائے جانے پر اُن کے اہلِ خانہ کی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جینس بھی عدالت میں داخل کرائے گئے اپنے جواب میں عمران ریاض خان کی گمشدگی سے لاعلمی کا اظہار کر چکی ہیں۔
آخر عمران ریاض خان گئے کہاں؟ کس نے اُنہیں اُٹھایا اور اب وہ کہاں ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تاحال کسی کے پاس نہیں ہیں۔
اُن کے اہلِ خانہ کو اب بھی یہ آس ہے کہ وہ جلد گھر آ جائیں گے کیوں کہ ماضی میں لاپتہ ہونے والے افراد کئی کئی روز بعد بھی واپس آتے رہے ہیں۔
'عمران ریاض کی بازیابی کی کوششیں جاری ہیں'
منگل کو ہونے والی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر حسین بھٹی کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمران ریاض پاکستان کے نامور صحافی ہیں جن کی بازیابی کی کوششیں جاری ہیں۔
دورانِ سماعت نمائندہ وزارت دفاع نے عدالت کو بتایا کہ وہ سب ایک پیج پر ہیں۔ ابھی تک عمران ریاض کا کوئی سراغ نہیں ملا جس پر عمران ریاض کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اُن کا صبر جواب دے رہا ہے۔
اِس سے قبل گزشتہ سماعت میں انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کی ہدایت پر عمران ریاض کی قانونی ٹیم اور اہلِ خانہ سے ملاقات کی ہے۔
اُنہوں نے ایف آئی اے سے بھی رابطہ کیا ہے۔ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے جیو فینسنگ کی ہے مگر کوئی نمبر لوکیٹ نہیں ہوسکا۔
ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ عمران ریاض کے معاملے میں کچھ غیر ملکی نمبرز استعمال ہوئے۔ جو نمبرز استعمال ہوئے وہ افغانستان کے ہیں۔ اُن کے پاس افغانستان کے نمبروں کو ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
منگل کی صبح نجی ٹی وی جیو کراچی کے ایک پروڈیوسر زبیر انجم کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاع آئی ہے۔ اِس سے قبل صحافی سمیع ابراہیم، آفتاب اقبال اور تجزیہ کار اوریا مقبول جان سمیت کچھ صحافی لاپتا ہوئے تھے، جو گزرتے وقت کے ساتھ اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ تاہم صحافی اور یوٹیوبر عمران ریاض تاحال بازیاب نہیں ہو سکے۔
عمران ریاض کب اور کیسے لاپتہ ہوئے؟
عمران ریاض بازیابی کیس میں پنجاب پولیس کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق عمران ریاض کو 11 مئی کی رات ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ سے رہا کیا گیا تھا۔ عمران ریاض خان کو نو مئی کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کے بعد تھری ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔
اِس رہائی کے چند ہی لمحوں بعد چند نقاب پوش افراد عمران ریاض کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔ مذکورہ کیس میں وزارتِ داخلہ اور پنجاب پولیس کی جانب سے عدالت میں دیے گئے بیانات کے مطابق وہ اب تک ان افراد تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
'پورا خاندان تکلیف اور کرب سے گزر رہا ہے'
عمران ریاض کے بھائی عثمان ریاض بتاتے ہیں کہ بھائی کی گمشدگی کے باعث اُن کا پورا خاندان ہی تکلیف میں ہے۔ تمام افراد ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے ہیں۔ اُنہیں اللہ تعالٰی پر پورا یقین ہے بھائی واپس ضرور آئیں گے۔
اُن کے بقول بھائی کے بغیر ایک منٹ گزارنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ سارا خاندان رات جاگ کر گزارتا ہے کہ شاید ابھی فون آ جائے کہ وہ فلاں سڑک پر ہیں، اُنہیں آ کر لے جائیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کے بچے اُنہیں سب سے زیادہ یاد کرتے ہیں، چھوٹے بچوں کو یہ کہا ہے کہ وہ فارم ہاؤس پر گئے ہوئے ہیں جب کہ بڑے بچے جن میں اُن کی 14 سالہ بیٹی شامل ہے وہ حقیقت سے باخبر ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ شوہر کی گمشدگی کے باعث اُن کی اہلیہ ہر وقت روتی رہتی ہیں اور وہ بہت زیادہ کرب میں ہیں۔
عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق پرامید ہیں کہ عمران ریاض خیریت سے ہیں اور وہ جلد اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک حساس نوعیت کا کیس ہے جس کی بہت سے باتیں نہیں بتائی جا سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سماعت میں ان کی درخواست پر اِن کیمرہ چیمبر سماعت ہوئی تھی۔
اُن کے بقول عدالت میں آئی جی پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اِس کیس میں قریب پہنچ چکے ہیں اور جلد اچھے نتائج کی توقع ہے۔
میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ ماضی میں اِس نوعیت کے کیس عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمٰی میں بھی سنے جا چکے ہیں۔ ایسے کیسوں کی اکثریت میں ایک بات سامنے آتی ہے کہ طاقت ور اداروں کے لوگ مبینہ طور پر لوگوں کو لاپتہ کرتے ہیں۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عمران ریاض ٹھیک ہیں لیکن ایسا وہ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اُن پر تشدد ہوا ہو کیوں کہ ماضی میں ایسے کیسوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاپتہ شخص پر دورانِ حراست تشدد ہوا ہے لیکن اِس بارے وہ کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
میاں علی اشفاق کے مطابق ایک بات وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ عمران ریاض زندہ ہیں اور پاکستان ہی میں ہیں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ لوگ غیر ملکی سمیں استعمال کرتے ہیں تا کہ ایسے کیسوں میں لاپتہ شخص کو بدنام کیا جا سکے۔
عمران ریاض کے حلقہ احباب میں شامل ایک دوست نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عمران ریاض 11 مئی کو پاکستان سے عمان جا رہے تھے جہاں مبینہ طور پر اُن کے بھائی کا کاروبار ہے اور عمان جانے کا اُن کا پہلے سے ارادہ تھا۔ جونہی وہ سیالکوٹ ایئرپورٹ پہنچے تو اُنہیں حراست میں لے لیا گیا۔
عمران ریاض کے دوست کا کہنا تھا کہ اِس سے قبل عمران ریاض سعودی عرب عمرہ کی ادائیگی کے لیے بھی جا چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اُن کا نام اسٹاپ لسٹ میں شامل تھا۔ نام نکلنے کے بعد وہ دبئی بھی گئے تھے۔ دوست کے مطابق عمران ریاض پاکستان کے مختلف نجی چینلز میں بطور اینکر پرسن ملازمت کر چکے ہیں۔ وہ بول ٹی وی کے ساتھ منسلک تھے لیکن گزشتہ تین ماہ سے اُن کے شو پر پابندی عائد ہے۔
خیال رہے کہ عمران ریاض خان کو پاکستان تحریکِ انصاف کا حامی اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کا ناقد سمجھا جاتا ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد سے ہی وہ سوشل میڈیا پر خاصے سرگرم تھے اور مقتدر حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) سمیت دیگر عالمی تنظیمیں بھی عمران ریاض خان کی فوری بازیابی کے مطالبات کر چکی ہیں۔