وفاقی بجٹ کور کرنے کے لئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے پہلی بار جب پارلیمنٹ کے ایوان میں جانا ہوا تو پہلا واسطہ ان وفاقی ملازمین سے پڑا جو آنے والے بجٹ میں اپنی تنخواہوں کو بڑھانے کے لئے سراپا احتجاج تھے۔
معلوم نہیں کہ تنخواہوں میں اضافے کے واشگاف نعروں سے حکمرانوں پر کوئی فرق پڑ رہا تھا یا نہیں لیکن اس سوچ میں پڑ گیا کہ ان سرکاری ملازمین کو کم از کم یہ آسرا تو ہے کہ ان کی شنوائی ہوجائے گی اور یکم جولائی سے ان کی تنخواہوں میں ان کی امیدوں کے مطابق زیادہ نہ تو کم ہی سہی اضافہ تو ہوگا ۔لیکن کروڑوں دیگر لوگ جو کوئی سرکاری ملازمت نہیں رکھتے، کیا ان کی آمدنی میں بھی کوئی اضافہ ہوپائے گا؟ کیا ان کے لئے بھی کچھ اس بجٹ میں ریلیف ہوگا؟ کیا مہنگائی کی بدترین لہر سے غربت کی لکیر سے نیچے جاتے لوگوں کو بھی بھی کوئی آسانیاں میسر ہوسکیں گی؟
انہی سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہوئے ہم پارلیمنٹ کی راہداریوں میں پہنچے تو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بجٹ تجاویز کی منظوری دی جارہی تھی جس میں کافی بحث مباحثہ ہوا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ بحث ہی سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافے پرہوئی۔ اور ظاہر ہے کہ جب وفاق میں سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا تو صوبے بھی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے، چاہے اس کی قیمت ترقیاتی بجٹ کو کم کرکے ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے، اور ان کی کارکردگی کیسی بھی ہو، ملازمین کی تنخواہیں تو ضرور بڑھیں گے۔
تقریبا چھ بجے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو پریس گیلری میں پہنچا جہاں ماضی کے مقابلے میں خلاف معمول انتہائی پرسکون انداز میں وزیر خزانہ کی تقریر جاری تھی۔ اور دیکھا کہ ایوان کے دائیں جانب حکومتی بینچز پر براجمان اکثر ارکان آرام دہ ماحول میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
کچھ اراکین اسمبلی موبائل فون پر مصروف رہے اور ایک دوسرے سے ملتے جُلتے اور علیک سلیک کرتے نظر آئے۔ ایک موقع پر تو وزیر خزانہ کو اسپیکر سے شکایت کرنی پڑ گئی کہ باتیں کرنے والے اراکین کو خاموش کرایا جائے جس پر اسپیکر کو مداخلت کرنا پڑی۔ ایسے چند اراکین اسمبلی بھی نظر آرہے تھے جو اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کا سرسری مطالعہ کررہے تھے لیکن ان کی عدم دلچسپی خوب عیاں تھی۔
اور تو اور کئی مواقع پر دیکھا گیا کہ خود وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے وزیر دفاع خواجہ آصف بھی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران کافی دیر تک اپنے موبائل فونز پر کچھ تحریر کرنے میں مصروف رہے۔ وزیر اعظم کچھ وقت ا راکین اسمبلی کی پرچیاں اور سلامیاں وصول کرنے میں لگے رہے اور پھر کچھ مواقع پر جب وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں ان کا نام لیا تو وہ تقریر کی جانب بھی متوجہ نظر آئے۔
ساتھ کی نشست پر موجود سینئیر صحافی کے بقول بجٹ اجلاس میں ایوان میں یہ سکون اور اراکین کے چہروں پر اطمینان کیوں نہ نظر آئے جب اپوزیشن نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر پہلے ایوان سےمستعفی ہونے کا اعلان کیا، پھر جب آنے کا اعلان کیا تو پی ڈی ایم نے چال چلی اور اسپیکر نے استعفے منظور کرلئے اور پھر عدالتوں سے ریلیف ملنے کے باوجود 9 مئی کے بعد پیدا شدہ صورتحال میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی چھپتے پھر رہے ہیں اور ایسے میں حکومت کو کھُل کر کھیلنے کا موقع مل چکا ہے۔
جب نظر اپوزیشن بینچز پر پڑی تو بچی کچھی اپوزیشن میں متحدہ مجلس عمل کے واحد رکن اسمبلی مولانا اکبر چترالی کے علاوہ ڈاکٹر فہمیدہ بلوچ اور سائرہ بانو اور چند دیگر کے علاوہ کوئی اور نظر نہ آیا۔ لیکن یہاں بھی بجٹ تقریر میں دلچسپی خال خال ہی نظر آرہی تھی۔
ایک اور موقع پر جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے تقریر کے دوران بتایا گیا کہ کراچی کے لئے پانی کی سپلائی کے منصوبے کے لئے وفاقی حکومت نے بجٹ میں اس سال 17 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے ہیں تو کراچی سے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی اسامہ قادری ایوان میں کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ جس منصوبے کی کُل لاگت 100 ارب روپے سے زائد ہوچکی ہے اس کے لئے اس سال محض 17 ارب روپے مختص کرنا ناانصافی ہے۔ دو بار ان کی جانب سے یہ بات دھرانے پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کا جواب یوں دیا کہ اگر اس مقصد کے لئے اضافی رقم درکار ہوئی تو وہ بھی فراہم کی جائے گی۔ ایسے میں بطور کراچی کے رہائشی مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ گزشتہ 16 سال سے زیر التواء منصوبہ مکمل نہ ہونے سے کراچی والے آنے والے مزید کئی برسوں تک بھی بوند بوند پانی کو ترستے رہیں گے یا پھر وہ بورنگ کرکے کھارا پانی استعمال کرنے پر مجبور رہیں گے اور کچھ ٹینکروں کے ذریعے سرکاری لائنوں ہی سے چوری شدہ پانی مہنگے داموں خرید کر استعمال کرنے پر مجبور رہیں گے۔
ایک اور صحافی کا، جو گزشتہ دو دہائیوں سے پریس گیلری میں بیٹھ کر قومی اسمبلی کے سیکڑوں اجلاس کور کر تے رہے ہیں، کہنا تھا کہ حکومت کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری، اور رنگ بھی چوکھا آئے کے مصداق حکومت کو اپوزیشن کی عدم موجودگی میں اب بجٹ منظور کرانے میں کوئی خاص رکاوٹ کا سامنا ہی نہیں ہے اور پی ڈی ایم حکومت بغیر کسی مزاحمت کے الیکشن سال کا بجٹ دے کر روانہ ہوپائے گی۔