بدھ 14 جون کو تارکین وطن سے بھری ہوئی ایک بڑی کشتی یونان کے قریب بحیرہ روم میں ڈوبنے اور بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے اداروں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں سمندر میں ڈوبنے والوں کی تلاش اور ان کی جانیں بچانے کو ضروری قرار دیتے ہوئے اموات روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق منگل کے روز بحیرہ روم میں تارکین وطن کو لے جانے والی کشتی کی نشاندہی ہونے کے بعد یونان کے کوسٹل گارڈز نے مواصلاتی نظام اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے کشتی سےرابطہ کرنے اور انہیں مدد فراہم کرنے کی پیش کش کی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔ بدھ کی صبح جب کشتی یونان کے جزیرہ نما پیلوپونس سے تقریباً 75 کلومیٹر دور تھی، الٹنے کے بعد ڈوب گئی۔اس دوران ساحلی محافظ مسلسل اس کا تعاقب کر رہے تھے۔
کشتی پر سوار افراد کی جانیں بچانے کے لیے کوسٹل گارڈز کے چھ جہازوں، بحریہ کے ایک فریگیٹ، ایک ملٹری ٹرانسپورٹ طیارے، فضائیہ کے ایک ہیلی کاپٹر، کئی نجی جہازوں اور فرنٹیکس کے ایک ڈرون نے حصہ لیا۔ان مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں 104 افراد کو ڈوبنے سے بچالیا گیا اور 79 نعشیں نکالی گئیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ کشتی الٹنے سے قبل اس کی بجلی چلی گئی تھی۔ تاریکی کی وجہ سے مسافروں میں خوف و ہراس اور بے چینی پھیلی ۔ لوگوں کی دھکم پیل اور بھاگ دوڑ کے باعث کشتی کا توازن بگڑنے سے وہ الٹ کر ڈوب گئی۔ یونان کی حکومت نے سانحہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے
کشتی کا کپتان اسے اٹلی لے جانا چاہتا تھا، کیونکہ تارکین وطن سے متعلق یونان کے سخت قوانین کی وجہ سےبحیرہ روم کے راستے سفر کرنے والے اٹلی جانے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں سے تارکین وطن زیادہ آسانی کے ساتھ دیگر یورپی ممالک میں جا سکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی لیبیا کے ساحلی علاقے سے روانہ ہوئی تھی۔ یہ بنیادی طور پر ماہی گیری کا ایک ٹرالا تھا جسے انسانی اسمگلر تارکین وطن کو یورپ پہنچانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
کشتی پر سوار افراد کی تعداد کا صحیح علم نہیں ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کا کہنا ہے کہ لیبیا سے اٹلی جانے والے اس ٹرالر کے ساتھ تقریباً پانچ سو افراد بھی ڈوب گئے۔ اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کا اندازہ ہے کہ کشتی میں 750 افراد سوار تھے۔
یہ سمندری حادثہ 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہلاکت خیز واقعہ ہے۔ یو این مائیگریشن ایجنسی کے مسنگ مائیگرنٹس پراجیکٹ نے ٹویٹ میں لیبیا کے ساحل پر الٹنے والے بحری جہاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہےکہ یہ اپریل 2015 کے اٹلی کے راستے میں ہونے والے المناک بحری جہاز کے تباہ ہونے کے بعد اب تک کا دوسرا سب سے مہلک حادثہ ہو سکتا ہے،جس میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 800 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
غیرقانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے یورپ نے زمینی اور بحری راستوں کی نگرانی میں اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ بحیرہ روم کے انتہائی پرخطر راستے سے یورپ جانے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ زمینی سرحدوں کو عبور کرنا انتہائی دشوار بن چکا ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014 سے اب تک بحیرہ روم میں لاپتہ ہونے والے تارکین وطن کی تعداد 27 ہزار سے زیادہ ہے۔
اٹلی نے رواں سال اب تک 55 ہزار سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو رجسٹر کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں اکثریت آئیوری کوسٹ، مصر، گنی، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والوں کی ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی سالانہ تعداد ایک لاکھ 20 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
یورپی ملکوں میں پناہ گزینوں کے مسئلے پراختلاف پایا جاتا ہے۔ بحیرہ روم کے ممالک یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں غیرقانونی تارکین وطن کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ تارکین وطن کی اکثریت وہاں پہنچنے کے بعد جرمنی، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں جانے کی خواہش مند ہوتی ہے لیکن مشرقی یورپی ممالک تارکین وطن کی دیکھ بھال کا بوجھ اٹھانے سے انکار کرتے ہیں ۔
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ یورپی یونین تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے لیبیاکے ساحلی محافظ کو مدد فراہم کر رہی ہے جو لیبیا کے ساحلوں پر پہنچنے والے تارکین وطن کو تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بناتے ہیں۔
یورپی یونین اور رکن ممالک نے شمالی افریقی ممالک کے ساتھ اپنے سرحدی کنٹرول کو بہتر بنانے اور تارکین وطن کی کشتیوں کو یورپ پہنچنے سے روکنے کے لیے معاہدے بھی کیے ہیں۔ لیکن غریب ممالک میں زندگی گزارنے کے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہیں کہ تارکین وطن اچھے دنوں کی آس میں ہر خطرہ مول لینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔